خیال کا سفر، توارد، یکسانیت!
اکثر اوقات رسائل و جرائد و کتب کے مطالعے کے دوران بعض ایسے شعر نظر سے گزرتے ہیں، جن کو پڑھ کر ذہن پیچھے کی طرف لوٹ جاتا ہے اور حافظے میں یہ بات کلبلاتی ہے کہ ایسا ہی شعر، یا اس سے ملتا جلتا یا اسی مفہوم کا شعر اس سے پہلے بھی پڑھ چکا ہوں۔ پھر وہ مکمل شعر یاد داشت کے سہارے نوٹ کر کے مستند حوالوں، تذکروں یا شاعروں کے اصل مجموعوں سے نکال کر قارئین کی نذر کیا جاتا ہے۔ پھر مسلسل اور کثیر مطالعے کے نتیجے میں ایسے جمع شدہ اشعار اس کالم کی زینت بنا دیئے جاتے ہیں۔ اس لئے اس کام کو اتنا آسان نہ سمجھ لیا جائے کہ جیسے یہ سب کچھ کہیں اکٹھا دیکھا اور نقل کر لیا۔ ایک ایک شعر کے لئے پتّہ پانی کرنا پڑتا ہے تب گوہر مقصود ہاتھ آتا ہے۔ آج کے کالم میں ایسے ہی کچھ اشعار مدتوں بعد یکجا کئے جا رہے ہیں۔ ملاحظہ فرمایئے:
تمہیں دیکھوں تمہارے چاہنے والوں کی محفل میں
محبت کی قسم اتنی کہاں طاقت مرے دل میں
حزیں صدیقی
تمہیں چاہوں، تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں
مرا دل پھیر دو، مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا
مضطر خیر آبادی
پھر نہ کیجے مری گستاخ نگاہی کا گِلہ
دیکھئے آپ نے پھر پیار سے دیکھا مجھ کو
ساحر لدھیانوی
اَدائے حُسن کی معصومیت کو کم کر دے
گنہگار نظر کو حجاب آتا ہے
فیض احمد فیض
آنسو بہا رہے ہیں دکھاوے کے واسطے
اندر سے لوگ خوش ہیں مرے انتقال پر
جان کاشمیری
بتائیں آپ کو، مرنے کے بعد کیا ہو گا
پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہو گا
اکبر الٰہ آبادی
بظاہر قتل کا چھوڑا نہیں اُس نے نشاں تک
شواہد خون کے ملتے ہیں لیکن آستیں پر
صدیق فتح پوری
قریب ہے یارو روزِ محشر، چُھپے گاکشتوں کا خون کیوں کر
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا
امیر مینائی
خیر ؔ اپنوں میں اک ہم ہی نکل آئے ہیں شاعر
شہزادگ�ئ شوق یہ آبائی کہاں ہے؟
رؤف خیر
سو پُشت سے ہے پیش�ۂ آباء سپہ گری
کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے
مرزا غالب
مَیں نے جس حال میں اک عمر بسر کی سرشار
ایک ہی دن کبھی اس طرح گزارے کوئی
سرشار صدیقی
ایک پل کاٹنا مُحال جہاں
مَیں نے اک عمر واں گزاری ہے
پروین فنا سید
ابھی تو چاک پر ہیں کیا کہیں ہم اپنے بارے میں
نجانے دستِ کوزہ گر ہمیں کیسا بناتے ہیں
اظہر ادیب
نجانے اگلی گھڑی کیا سے کیا مَیں بن جاؤں
ابھی تو چاک پہ ہوں دست ِ کوزہ گر میں ہوں
ناصر علی سید
رَہیں مُدام جو روشن وہ آفتاب آنکھیں
کہاں سے لائیں مگر دیکھنے کی تاب آنکھیں
حسن عسکری کاظمی
نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں
وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں
جلیل مانکپوری
آنکھ جو رکھتے ہیں ہوتے ہیں اسیر
اُس نے پھیلایا ہے ایسا دام سا
کنول فیروز
وہ پرندے جو آنکھ رکھتے ہیں
سب سے پہل اسیر ہوتے ہیں
عبدالحمید عدم
حوادث میں اُلجھ کر مُسکرانا میری فطرت ہے
مجھے دُشواریوں میں اشک برسانا نہیں آتا
شکیل بدایونی
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دُشوار ہو جائے
اصغر گونڈوی
جھوٹا وعدہ ہی کر لے آنے کا
کر دے مجھ کو نہال تھوڑا سا
ازہر منیر
جھوٹا ہی سہی کرو تو وعدہ
یک رنگئ غم بُری بلا ہے
میر
خودی کا نشہ سر پر چڑھ گیا تھا
لگا جیسے خُدا میں ہو گیا ہوں
غفار بابر
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
مرزا یاس یگانہ چنگیزی
چلو عاصی ابھی واپس چلیں گھر
ابھی تو شام ہوتی جا رہی ہے
اقبال عاصی
مَیں اب تک دن کے ہنگاموں میں گم تھا
مگر اب شام ہوتی جا رہی ہے
ساقی امروھوی
بڑا ضبط اُس نے کیا وقتِ رخصت
مگر ہو گئی آنکھ نم دھیرے دھیرے
خوشی محمد طارق
دَم رُخصت وہ چپ رہے عابد
آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل
سید عابد علی عابد
کچھ نظمیں اور غزلیں ہوں گی
کیا نکلے گا میرے گھر سے
امتیاز کاظمی
چند تصویرِ بُتاں چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا
مرزا غالب
وہ ایک شخص کہ جس سے شکایتیں تھیں بہت
خفا ہوئے تو اُسی سے محبتیں تھیں بہت
حامد یزدانی
وہ ایک شخص کہ جس سے شکایتیں تھیں بہت
وہی عزیز، اُسی سے محبتیں تھیں بہت
ناصر زیدی