سعودی عرب میں اقتدار کی منتقلی۔۔۔
شاہ عبد اللہ کی وفات کے بعد سلمان بن عبدالعزیز کے سعودی فرماں روا بننے سے حکومتی سطح پر کی جانے والی بعض تبد یلیوں کو عرب دنیا سمیت مغرب میں بڑی اہمیت دی جا رہی ہے۔خاص طور پر سعودی وزیر داخلہ شہزادہ محمد نائف کو نا ئب ولی عہد بنا نے کے فیصلے کو ایک اہم تبدیلی قراردیا جا رہا ہے، حتیٰ کہ جب امریکی صدر با رک اوبا ما ، شا ہ عبد اللہ کی وفا ت پر تعزیت کے لئے سعودی عرب گئے تو اس وقت بھی شہزادہ نائف کی بحیثیت نائب ولی عہد تقرری ہی سب کی توجہ کا بنیا دی مرکز بنی ہو ئی تھی۔ سعودی عرب میں شہزادہ نائف کو القاعدہ جیسے جہادی گروپ کے خلاف انتہائی موثر کارروائی کرنے والے شخص کے طور پر جا نا جا تا ہے،جبکہ سعود خاندان کی حاکمیت کے خلاف کسی بھی طرح کی مخالفت کو دبانے اور اس حوالے سے موثر انٹیلی جنس نیٹ ورک قائم کرنے کے حوالے سے بھی شہزادہ نائف کی خدمات کو سعودی شا ہی خاندان میں کا فی سراہا جا تا ہے۔تاہم انسانی حقوق سے وابستہ ادارے سعودی شا ہی خاندان کے سیا سی مخالفین کے خلاف انتہا ئی سخت کا روائیوں پر شہزادہ نائف پر تنقید بھی کرتے آئے ہیں، جبکہ عر ب دنیا کا آزاد میڈیا یہ موقف بھی اپنا تا ہے کہ شہزادہ نائف کے تحت اسلامی جہادیوں کے خلاف انتہائی سخت کا رروائی کرنے سے ردعمل کے طور پر ان جہا دیوں کے لئے سعودی سماج کی نچلی پرتوں سے حمایت میں مزید اضافہ ہو جا تا ہے۔
شہزادہ نائف کی بحیثیت نائب ولی عہد تقرری کو اس لئے دنیا بھر میں اہمیت دی جا رہی ہے، کیونکہ شہزادہ نائف پہلے نائب ولی عہد ہیں کہ جو سعودی عرب کے بانی عبدالعزیز ابن سعود کے بیٹے نہیں، بلکہ پوتے ہیں اور اگر موجودہ سعودی ولی عہد شہزادہ مقرن کے بعد شہزادہ نائف سعودی عرب کے بادشاہ بنیں گے، تو وہ پہلے ایسے سعودی بادشاہ ہو ں گے کہ جو عبدالعزیز ابن سعود کے بیٹے نہیں ہوں گے۔یوں شہزادہ نائف کو نا ئب ولی عہد مقرر کرکے سعود ی شاہی خاندان نے یہ عندیہ دے دیا ہے کہ اب سعودی اقتدار دوسری نسل کو منتقل ہو گا۔55سالہ شہزادہ نائف کو امریکہ کا انتہا ئی قریبی شخص تصور کیا جا تا ہے، کیونکہ 9/11کے بعد سعودی اور امریکی انٹیلی جنس کے مابین رابطوں کو انتہائی مو ثر بنا نے میں پر نس نائف کا کردار انتہائی اہم تھا۔2009ء میں شہزادہ نائف امریکی اور سعودی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ’’ ایک ہی ٹیم ‘‘بھی قرار دے چکے ہیں۔ شہزادہ نائف کے بعد جس تقرری کو اہم قرار دیا جا رہا ہے وہ موجودہ بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کے 34سالہ بیٹے محمد بن سلمان کی بحیثیت وزیر دفاع اور شاہی عدالت کے سربراہ کے طور پر ان کی تقرری ہے۔ شاہ عبد اللہ کی وفا ت کے فوراً بعد سعودی عرب کی انتہا ئی سست رو بلکہ جمو د کا شکا ر بیو رو کریسی میں جن اصلا حا ت کو متعا رف کر وایا جا رہا ہے اور روا یتی ذہن رکھنے والے لوگوں کو بر طرف کیا جا رہا ہے تو ان تبد یلوں کو شہزادہ محمد بن سلمان ہی کی اختراح قرار دیا جا رہا ہے۔ عبد اللہ دور میں شا ہی عدالت کے سربراہ خالد التواجری کو عہدے سے بر طرف کر دیا گیا ہے، جبکہ امریکہ میں سابق سعودی سفیر اور انتہا ئی با اثر شخصیت بندر بن سلطان کو نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سربراہ کے عہدے سے فا رغ کر دیا گیا ہے ۔ وفا ت پا نے والے عبد اللہ کے بیٹوں پرنس ترکی اور پرنس مشال کو بالترتیب ریاض اور مکہ کے گورنز کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔
شاہ عبد اللہ کی وفا تً کے فوراٰٰٰبعد شا ہی خا ندان کے اندر یہ تبد یلیاں کس با ت کی جا نب اشا رہ کر رہی ہیں؟ ظاہر ہے یہ تو ممکن نہیں کہ شاہ عبداللہ کی وفا ت کے بعد ہی ان تبد یلیوں کے با رے میں سوچا گیا ہوان تبدیلیو ں کے حوالے سے ہوم ورک بہت پہلے سے ہی کر لیا گیا تھا اور شا ہ عبد اللہ کی وفات کے چند گھنٹوں کے اندر ہی ان تبدیلیوں کے اعلانات سامنے آنے لگے۔ دراصل عرب دنیا کا آزاد میڈیا اور سعودی سیا ست پر نظر رکھنے والا مغربی میڈیا سعودی عرب کی غلام گر دشوں میں ہو نے والی ان محلا تی تبدیلوں کو ایک خا ص تنا ظر میں دیکھ رہا ہے۔ موجودہ سعودی فرما ں روا سلمان بن عبدالعزیز کا تعلق سعود خا ندان کے اندرجس شاخ یا چھوٹے قبیلے سے بنتا ہے وہ سدیری شاخ ہے۔سدیری جس کو 7سدیری بھی کہا جا تا ہے کا نام سابق سعودی با دشاہ شاہ فہدبن عبدالعزیز(1982-2005ء) کی والدہ حسہ بنت احمد السدیری سے لیا گیا ہے شاہ فہد اور ان کے دیگر 6سگے بھائیوں ( یہ سا توں بھائی حسہ بنت احمد السدیری کے بیٹے تھے) سدیری شاخ کا پہلا بادشاہ شاہ فہد تھا اور اب موجودہ سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز بھی سدیری ہیں۔ حال ہی میں وفات پانے والے شاہ عبداللہ نے اپنے دور حکومت میں کئی اہم تعیناتیوں کے ذریعے انتہا ئی اثرو رسوخ کے حامل سدیری شاخ کے اثر کو کم کرنے کی بھر پور کوشش کی تھی اور اب سلمان بن عبدالعزیز نئی تعیناتیوں کے ذریعے شاہ عبداللہ کے دھڑے کے اثر ورسوخ کو کم کر کے اپنے یا سدیری شاخ کے اثر و رسوخ میں ا ضا فہ کر رہے ہیں۔
سعودی عرب کی تا ریخ میں پہلی مرتبہ سعودی شہزادے شا ہی خاندان میں اختلا فات کا اعلانیہ اظہا ر کر رہے ہیں۔بعض شہزادے تو شاہ عبداللہ کی وفا ت کے بعد ٹوئٹر کے ذریعے بھی اپنے اپنے اختلا فا ت کا اظہا ر کر رہے ہیں۔خاص طور پر عبدالعزیز السعود کے بیٹوں کے حیا ت ہو نے کے با وجود شہزادہ نائف کو نا ئب ولی عہد مقرر کرنے سے پرانی عمر کے دیگر شہزا دوں میں تحفظات پائے جانے کی اطلاعات موجود ہیں۔ اگرچہ اطلاعات کے مطابق شہزادہ نائف کو اندرون خانہ 600 شہزا دوں کی حما یت حا صل ہے، مگر دوسری طرف اس سے زائد تعداد میں شہزادے ان کے نائب ولی عہد بننے پر خوش نہیں۔ جہاں تک شہزادے مقرن (جو سدیری نہیں) کو ولی عہد بنا نے کا تعلق ہے تو ان کو ولی عہد بنانے کو سلمان بن عبدالعزیز کی مجبو ری قرار دیا جا ر ہا ،ہے کیونکہ ان کو ولی عہد بنا نے کے حوالے سے شاہی حکم نامہNo. A/86 دس ما ہ قبل شاہ عبد اللہ کے دور میں جا ری کیا گیا تھا۔ تا ہم بعض اخباری اطلاعات کے مطا بق سلمان بن عبدالعزیز سے کچھ بعید نہیں کہ وہ مارچ 1992کے بنیا دی قانون (اس کے تحت با دشاہ محض اپنی منشا اور خواہش کے مطابق کسی کو بھی اس کے عہدے سے بر طرف یا کسی کا بھی تقرر کر سکتا ہے)کو بنیاد بناتے ہوئے اپنے سگے بھائی (سدیری) احمد بن عبدالعزیز کو ہی ولی عہد مقرر کر دیں۔
سعودی عرب کے شاہی خاندان میں اس نوعیت کی خبروں سے واضح ہو رہا ہے کہ سعود خاندان اب سعودی اقتدار اور اس کے ساتھ وابستہ بھرپور معاشی مراعات کی تقسیم کے حوالے سے اختلافات کا شکار ہو رہا ہے۔دنیا میں کہیں بھی کوئی شاہی نظام اقتصادی یا انفراسٹرکچر کی ترقی کاجتنا مرضی بڑا دعویدار ہو، مگر یہ حقیقت ہے کہ شا ہی نظام عملی طور پر دنیا بھر میں ایک متروک اور مسترد شدہ سیاسی نظام مانا جا تا ہے۔ تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود آج سعودی عرب کو داخلی اور خارجہ سطح پر جن مسائل کا سامنا ہے ان میں یقیناًشاہی خاندان کی ایسی پالیسیوں کا بھی عمل دخل ہے کہ جو اس نے اپنے اثرو رسوخ میں اضافے کے لئے اپنائیں۔سارے مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب کے لئے اپنی پراکسیز کے لئے حمایت کے با عث آج عراق، شام ،لیبیا اور یمن میں خانہ جنگی کی کیفیت ہے، جبکہ بحرین میں اپنی حامی بادشاہت کے تحفظ کے لئے2011ء میں سعودی عرب کی بحرین میں فوجی کا رروائی، مصر میں السیسی جیسے آمر کی واضح حما یت ، امریکہ سے ایران اور شام پر حملہ کرنے کے مطالبات سعودی خارجہ پا لیسی کے چند تازہ نمو نے ہیں،جبکہ داخلی سطح پر سعودی عرب میں غربت اور بیروزگاری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔28ملین آبادی میں سے 506,000 نوجوان اس سال2015ء میں نوکری یا روزگا ر کمانے کی عمر میں داخل ہوچکے ہیں، مگر سعودی معیشت اتنے بڑے پیمانے پر ان نوجوانوں کو روزگار فراہم کر نے کے قابل نہیں۔کل 28ملین سعودی آبا دی کا آدھے سے زائد حصہ25سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ غیر جانبدار ذرائع یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سعودی معیشت میں اتنی بڑی تعداد میں نوجوانوں کو معاشی دھارے میں شامل کرنے کی سکت نہیں یوں یہ بے روزگار نو جوان کل کو اسلامی شدت پسندی کا راستہ بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ ان حالات میں کیا یہ بہتر نہ ہو تا کہ سعودی شاہی خا ندان مشرق وسطیٰ اور اس خطے سے باہر اپنے اثرو رسوخ میں اضا فے سے زیا دہ اپنے داخلی مسا ئل کے حل کے لئے ہی اپنے وسائل اور توجہ صرف کرتا؟ *