ایل پی جی۔نئی قیمتوں پر عملدرآمدکرایا جائے
پٹرولیم مصنوعات کے ساتھ ہی ایل پی جی کے نرخ بھی کم ہوئے اور گزشتہ ہفتے تک اس کی قیمت110روپے فی کلو تھی اس میں مزید10روپے کی کمی ہوئی اور نرخ 100روپے فی کلو ہو گئے، لیکن دکاندار گاہکوں کو بدستور 110روپے ہی کے حساب سے بیچ رہے ہیں۔ پٹرولیم کی قلت یا بحران کے دوران اور اس سے قبل ایل پی جی کمپنیوں نے بھی منافع خوری کی حد کی اور نرخ250 فی کلو تک لے گئے، حتیٰ کہ بلیک کر کے300روپے فی کلو تک بیچی گئی۔ شدید احتجاج کی پروا کئے بغیر اپنے ہدف پورے کر لینے کے بعد ہی قیمتوں میں بتدریج کمی کی جاتی رہی اور پچھلے ایک ماہ سے یہ 110روپے فی کلو تھی۔ اب اگر نرخ مزید10روپے فی کلو کم ہوئے ہیں تو ان پر عمل نہیں کیا جا رہا، دکاندار (ایجنسی والا) کہتا ہے کہ اس نے مہنگے داموں خریدی ہے، جب نئے نرخ والی آئے گی تو وہ بھی کم کر دیں گے۔اب حکومت نے پٹرول کے بحران پر قابو پایا ہے تو نئے نئے بحران پیدا ہو رہے ہیں۔ دراصل یہ حکومتی اداروں کی کمزوری ہے جو اس کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور ان کی طرف سے نظر نہ رکھنے کے ذمہ دار حکمران ہی ہوتے ہیں جو سب اچھا کرنے کا دعویٰ کر کے عوام سے ووٹ اور حمایت حاصل کرتے ہیں۔ ان کو مناسب انداز سے پوچھنے والا ہی کوئی نہیں، اگر احتساب کیا جاتا ہے تو پھر کسی کی ذمہ داری کا تعین کئے بغیر یکایک کوئی کارروائی کر دی جاتی ہے۔ اس وجہ سے یہ افسر کچھ عرصہ بعد بحال ہو جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قیادت نے وزارتوں کی ذمہ داری جن رہنماؤں کے سپرد کی وہ اپنے اپنے محکموں کے ذمہ دار ہیں اور پوچھ گچھ بھی انہی سے کی جانا چاہئے۔ احتساب کا عمل بھی اوپر سے شروع کیا جائے، ذمہ دار حضرات کو ایل پی جی کے معاملات بھی سدھارنا چاہئیں۔