قدرتی دودھ اور ٹی وائٹنرمیں فرق

قدرتی دودھ اور ٹی وائٹنرمیں فرق
 قدرتی دودھ اور ٹی وائٹنرمیں فرق

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پنجاب فوڈ اتھارٹی وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف کے ویژن کے مطابق لاہور سمیت پنجاب میں عوام کو حفظان صحت کے مطابق غذا کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے سرگرم عمل ہے۔خوراک کی تیاری، سٹوریج اور فروخت کی نگرانی فوڈ اتھارٹی کاقانونی فریضہ ہے۔ حفظان صحت کی اہمیت،اس کے اصولوں سے آگاہی اور ان پر عملدرآمد پنجاب فوڈ اتھارٹی کا اولین مقصد ہے۔فوڈ اتھارٹی کی ٹیم غذائیت کے ماہرین کی مدد سے ان فرائض کو بخوبی نبھا رہی ہے۔پاکستان میں خوراک کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کے حوالے سے عالمی ادارۂ صحت کی چشم کشا رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 60فی صد آبادی ناقص خوراک کی وجہ سے مختلف مسائل کا شکار ہے، جبکہ 44فی صد بچوں کی نشوونما ناقص خوراک اورغیر معیاری دودھ کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے۔ ملاوٹ کے علاوہ دودھ سے پیدا ہونے والے غذائی مسائل کی ایک بڑی وجہ ٹی وائٹنرکو بطوردودھ استعمال کرنااور اس حوالے سے آگاہی نہ ہونا ہے۔ ٹی وائٹنر کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یورپ میں1945ء میں پہلی مرتبہ سویا بین ٹی وائٹنر بنایا گیا، جسے بعد میں کافی کریمر کے نام پر مارکیٹ میں متعارف کروایا گیا۔1992ئمیں ڈی ہائیڈ ریٹڈکریم اور چینی سے چائے میں ڈالنے کے لئے مخصوص قسم کا سفوف تیار کیا گیا۔


کافی، چائے وغیرہ کے لئے دودھ کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جانے والا ٹی وائٹنر محلول اور دانے دار سفوف دونوں صورتوں میں دستیاب ہوتا ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ٹی وائٹنر تیار کیسے کیا جاتاہے تا کہ یہ امر مزید واضح ہو سکے کہ ٹی وائٹنر قطعی طور پر قدرتی دودھ یا اس کا متبادل نہیں ہے۔ٹی وائٹنر نباتاتی چکنائی اور سکمڈ ملک میں چینی ڈال کر ان سب کو یکجا کرنے والاسٹیبلائزرڈال کر بنایا جاتا ہے۔ 45ڈگری سینٹی گریڈ سے 50 ڈگری سینٹی گریڈ پر پانی کوگرم کر کے اس میں سکمڈ ملک پاؤڈر شامل کیا جاتا ہے۔15سے 20منٹ تک ہائیڈریٹ کرنے کے بعد پگھلنے سے پہلے والی چکنائی اس میں شامل کی جاتی ہے۔پی ایچ، یعنی ہائیڈروجن لیول 6.80مع فاسفیٹ سوڈیم سٹریٹ تک رکھا جاتا ہے۔پھر پاسچرائزیشن لائن تک منتقل کیا جاتا ہے۔ 180/30بار کو 65سے 70ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوموجینائز کر کے یکجا کیا جاتا ہے اور 15سیکنڈتک 72ڈگری سینٹی گریڈ تک پاسچرائزکیا جاتا ہے۔5ڈگری سینٹی گریڈ پر ٹھنڈا کیا اور 3 گھنٹے تک اس آمیزے کو رکھاجاتا ہے ۔یو ایچ ٹی کے عمل کو 4سیکنڈ تک 142ڈگری سینٹی گریڈ پر جاری رکھا جاتا ہے۔ 180/30بار پریشر پر 70ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوموجینائز ڈاؤن سٹریم کیا جاتا ہے اور 20سے25ڈگری سینٹی گریڈ تک ٹھنڈا کر کے پیک کر دیا جاتا ہے۔اس عمل سے صاف ظاہر ہے کہ ٹی وائٹنر دودھ یا اس کا متبادل نہیں ہے۔

ٹی وائٹنر میں پروٹین کی ایک قسم کیزین پائی جاتی ہے۔اس کی تیاری میں مصنوعی طور پر چینی موجود نہیں ہوتی اور غذائی اجزاء بھی خالص دودھ کی نسبت نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔اس میں کولیسٹرول کی سب سے خطرناک قسم آکسیڈائزڈ کولیسٹرل پایا جاتا ہے جو خون کی نالیوں میں خون کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا کرنے والے اجزا کا سبب بنتا ہے، جس سے دل کی بیماریوں کا آغاز ہوتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹی وائٹنر کا مسلسل استعمال بسا اوقات کینسر کا باعث بھی بن جاتا ہے۔مبہم اور معنی خیز اشتہارات،غیرواضح لیبل اور سب سے بڑھ کر ٹی وائٹنر کے نقصانات کے بارے میں شعور وآگاہی کی کمی کی وجہ سے عام لوگ ٹی وائٹنر کو دودھ ہی سمجھ کر استعمال میں لے آتے ہیں۔ستم یہ ہے کہ بعض اوقات بچوں کو مائیں ٹی وائٹنر دودھ کے طور پر استعمال کراتی ہیں، جس سے نومولود اور کمسن بچوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔عالمی ادارۂ صحت کے مطابق بچوں کی نشوونما پاکستان میں ناقص خوراک اور دودھ کی وجہ سے متاثر ہورہی ہے۔پنجاب فوڈ اتھارٹی کے حالیہ سروے کے مطابق نہ صرف دیہاتوں، بلکہ شہروں میں بھی ایک واضح اکثریت لاعلمی میں ٹی وائٹنر کو دودھ سمجھ کے استعمال کرتی ہے۔کسی دوردراز علاقے سے تعلق رکھنے والی سکینہ بی بی ہو یا اللہ دتہ، شہر کے کسی مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والا محمد فریدہو یا نازیہ ،سب ٹی وائٹنر اور دودھ کے فرق سے لاعلم ہیں، جس کی بڑی وجہ کمال مہارت سے بنائے گئے ٹیلی ویژن کمرشل ہیں۔ پورے کرشل میں بہت خوب صورت طریقے سے ٹی وائٹنر کو دودھ بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور کڑک دودھ پتی بنانے کا واحد حل بنا کر پیش کیا جاتاہے جس کی وجہ سے صارف اسے دودھ ہی سمجھتا ہے۔ پورے کمرشل میں یا پیکٹ پر کہیں بھی طریقہ استعمال یا احتیاط کا ذکر تک نہیں ہوتااور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خواتین،بڑوں کو اور مائیں بچوں کو یہی ٹی وائٹنردودھ سمجھ کے پلاتی ہیں جس سے بچوں کی نشوونما متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ غذائیت کی کمی کی وجہ سے بیماریاں بھی زور پکڑتی ہیں۔


مارکیٹ میں موجود ڈبے والے دودھ اور ٹی وائٹنر کی فروخت کا موازنہ کیا جائے تو تقریبا 60فی صدحصہ ٹی وائٹنر کا ہی ہے ۔اس کی ایک وجہ اس کی آسانی سے تیاری ہے، جس کے لئے کمپنیوں کو زیادہ دودھ اکٹھا نہیں کرناپڑتا اور دوسری اہم وجہ کم خرچ کر کے زیادہ منافع کماناہے۔فیکٹری میں تیار کیا جانے والا ٹی وائٹنر بس چند اچھے کمرشلزاور نسبتاً سستاہونے کی بدولت مارکیٹ میں دودھ کے مقابلے میں زیادہ مقدار میں بکتا اور شرح منافع دو چند کر دیتا ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کو کسی بھی طرح ٹی وائٹنر کے کاروبار پر اعتراض نہیں تھا، تاہم ہوشیاری سے ٹی وائٹنر کو دودھ یا اس کا متبادل بنا کربیچنے پر قانونی اعتراضات تھے اور اس حوالے سے عملی اقدامات کئے جا چکے ہیں۔ دنیا بھر میں ٹی وائٹنر کو دودھ یا اس کا متبادل تصور نہیں کیا جاتا اوراس حوالے سے ڈبوں پر واضح ہدایات درج ہوتی ہیں۔ٹی وائٹنر کے حوالے سے پنجاب فوڈ اتھارٹی کے قوانین انتہائی واضح اور بین الاقوامی قوانین سے مطابقت رکھتے ہیں، تا ہم مارکیٹ میں ٹی وائٹنر کا کاروبار کرنے والے قوانین کے بر عکس ٹی وائٹنر کو دودھ کا متبادل بنا کر بیچ رہے ہیں۔ان تمام مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے پنجاب فوڈ اتھارٹی نے PFA Act 2011 کے سیکشن 2(b) کے تحت لازم کیا ہے کہ تمام ٹی وائٹنر اور اس کی مدد سے بنی مختلف اشیائے خورونوش بنانے والی کمپنیاں درج ذیل ہدایات پر عمل کرنے کی پابند ہوں گی۔ ٹی وائٹنر بنانے والی تمام کمپنیاں اپنی مصنوعات کے لیبل کے 15فیصدحصے پراردو اور انگریزی میں یہ واضح تحریر کریں کہ " یہ پراڈکٹ نباتاتی چکنائی سے بنائی گئی ہے اور دودھ یا دودھ کا متبادل نہیں ہے"۔۔۔فروزن ڈیزرٹ تیار کرنے والی تمام کمپنیاں اپنی مصنوعات کے لیبل کے 15فیصد حصے پراردو اور انگریزی میں یہ واضح تحریرکریں کہ " یہ پراڈکٹ نباتاتی چکنائی سے بنائی گئی ہے اور آئس کریم نہیں ہے"۔مارجرین تیار کرنے والی تمام کمپنیاں اپنی مصنوعات کے لیبل کے15 فیصدحصے پر اردو اور انگریزی میں یہ واضح کریں کہ " یہ پراڈکٹ نباتاتی چکنائی سے بنائی گئی ہے اور مکھن یا مکھن کا متبادل نہیں ہے"۔ ٹی وائٹنر بنانے والے تمام اداروں کونئے لیبل تیار کرنے اوراشتہارات کو پنجاب فوڈ اتھارٹی کے سائنٹیفک پینل سے منظور کرانے کا پابند کیا گیا ہے۔اس حوالے سے عوامی آگاہی کے لئے اخبارات میں اشتہاربھی دیئے جا رہے ہیں اور تمام ٹی وائٹنر کمپنیوں کو پابند کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ٹیلی ویژن اشتہار کو واضح کر کے دکھائیں تاکہ ٹی وائٹنر کو دودھ نہ سمجھا جائے۔

مزید :

کالم -