معلوماتی سفرنامہ۔ ۔ ۔ ساتویں قسط

معلوماتی سفرنامہ۔ ۔ ۔ ساتویں قسط
معلوماتی سفرنامہ۔ ۔ ۔ ساتویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اہلِ مغرب کے اخلاقی بگاڑ کی اساس

مغربی تہذیب جس اخلاقی بگاڑ اور مادر پدر جنسی آزادی کے دور سے گزر رہی ہے اس پر ہماری طرف سے کافی اعتراضات کیے جاتے ہیں اور اسے مغربی زندگی کا ایک بڑا منفی پہلو خیال کیا جاتا ہے۔ تاہم اہل مغرب اپنے اس رویے کو معیوب خیال نہیں کرتے۔ وہ اسے آزادی عمل کی غیر متنازع اور مسلمہ انسانی قدر کا لازمی نتیجہ خیال کرتے ہیں۔
مغربی فکر کے ارتقا سے واقف لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ نشاۃ ثانیہ کے دور میں جو ردعمل مروجہ عیسائی مذہب کے خلاف ہوا وہ بڑھتا ہو انکارِمذہب تک جاپہنچا۔ دریافت و ایجاد کے جوش میں فکر وعمل کی جو راہیں کھلیں انہوں نے ہرپہلو سے مذہب کو ایک کونے میں کردیا۔ اس صورتحال کے متعدداسباب تھے۔جن میں پاپائیت کی بے لچک اور انتہا پسند حکومت کے خلاف ردعمل ، مسیحی عقائد و مسلمات کا جدیدسائنسی انکشافات کے خلاف ہونا اور اہل کلیسا کا اپنے توہمات پر اڑجانا نمایاں تھے۔مثلاًمسیحی فکر میں زمین کو کائنات کے مرکز کی حیثیت حاصل تھی کیونکہ یہ ان کے خدا کی جنم بھومی تھی۔ جبکہ سائنس کے نزدیک یہ بات خلافِ واقع تھی۔ لیکن انہوں نے اس حقیقت کو ماننے کے بجائے سختی سے جدید خیالات کو دبانے کی کوشش شروع کردی۔ جس کے نتیجے میں مذہب کے خلاف جذبات پیدا ہونا شروع ہوگئے۔

معلوماتی سفرنامہ۔ ۔ ۔ چھٹی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
انیسویں صدی تک مغربی فکر کے لیے نظریاتی طور پر بھی خدا کو ساتھ لے کر چلنا مشکل ہوگیا۔ مگر رکاوٹ یہ تھی کہ انسان ایک توجیہ پسند مخلوق ہے۔ انکارِ خدا کے بعد لازمی تھا کہ خدا کے بغیر انسان اور کائنات کی توجیہ کی جائے اور ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔ اس کے لیے یہ بتانا ضروری تھا کہ بغیر ایک خالق کے کائنات اور انسان کیسے وجود میں آئے۔قرآ ن بھی اپنے منکرین کے سامنے یہی دو سوال رکھتا ہے: ’’ کیایہ بغیر کسی ( پیدا کرنے والے ) کے پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خود پیدا کرنے وا لے ہیں؟ کیا انہوں نے ہی آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے؟ بلکہ یہ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں‘‘ ، (الطُّور52:35۔36)۔
کائنات کا مسئلہ تو خیر آج کے دن تک حل نہیں ہوسکاکہ یہ خالق کے بغیر کیسے بن سکتی ہے۔ اس کے برخلاف (Big Bang Theory)نے اب اس بات کا پورا امکان سائنسی بنیادوں پر ثابت کردیا ہے کہ کائنات کا آغاز جس دھماکے سے ہوا ، وہ ایک خالق کی بیرونی مداخلت کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوا ۔البتہ اُس زمانے میں ڈارون کے نظرےۂ ارتقا کی صورت میں خدا کے بغیر انسان کی توجیہ کی ایک شکل لوگوں کے سامنے آگئی۔ گویا بندر کے ہاتھ ناریل لگ گیا( نظرےۂ ارتقا میں بندر اور انسان میں جو خصوصی تعلق ہے ، یہ محاروہ پڑھتے ہوئے ،وہ ذہن میں حاضر رہے)۔ حال یہ ہوا کہ ڈارون کو The man who killed the God کا خطاب مل گیا۔نظرےۂ ارتقا کی غیر معمولی مقبولیت کا سبب، اس کی تمام تر علمی کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود، یہی تھا کہ اس نے سائنسی بنیادوں پر خدا سے ہٹ کر انسان اور حیات کی توجیہ کرنے کی کوشش کی ۔
پھر کیا تھا سماجی، عمرانی، نفسیاتی، معاشی، معاشرتی، تہذیبی اور تاریخی علوم کے ماہرین کی ایک فوج انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر اس اصول کی روشنی میں کام کرنے کے لیے کھڑی ہوگئی کہ انسان ایک بے خدا اور حیوا نی الاصل ہستی ہے۔ ان علوم میں سے دو ایسے تھے جن سے موجودہ جنسی بے راہ روی کی فضا ہموار ہوئی۔ پہلا علم نفسیات کا تھا۔ فرائڈ نے اس پر کام کیا اور جنس کے جذبے کو بنیاد بناکر تمام انسانی اعمال و اعتقادات کی تشریح کرڈالی اور اسی بنیادی جبلت کو زندگی کی روحِ رواں قراردیا۔
اس سے کہیں زیادہ اثر اس کام کا ہوا جو انسانی تہذیب پر کیا گیا۔اس میں دکھایا گیا کہ جنسی اخلاقیات کا ماخذ فطرت یا مذہب نہیں بلکہ معاشی نظام ہے جو شکار سے زراعت اور زراعت سے صنعت تک پہنچا ہے۔ اس علم کے مرتبین نے بتایا کہ ابتدا میں انسانی معاشروں میں مرد وعورت کے تعلقات مکمل جنسی آزادی کے اصول پر قائم تھے۔ مگر جب انسان نے شکار سے زراعت کے عہد میں قدم رکھا تو زمین کی انفرادی ملکیت کا نظریہ پیدا ہوا۔ ایک مرد کو زمین پر کام کاج کرنے کے لیے کام کرنے والوں کی ضرورت پڑی۔ ان کارکنوں کے حصول کا بہترین ذریعہ اولاد تھی۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ شادی کا سلسلہ شروع ہو جس میں کسی عورت کی وفاداریاں صرف ایک مرد سے وابستہ ہوں اور اس سے ہونے والی اولاد صرف اسی کی ملکیت ہو۔ عورت کے ایک مرد کی ملکیت ہونے کے اسی تصور سے عصمت اور حیا کے تصورات پیدا ہوئے۔ تاکہ ان پابندیوں سے عورتوں کی لگام ہمیشہ مردوں کے ہاتھ میں رہے۔ جبکہ مردوں نے خود کو ہمیشہ ان زنجیروں سے آزاد رکھا ہے۔
اس تحقیق کے مطابق اب انسان نے زراعتی دور سے صنعتی دور میں قدم رکھ دیا ہے۔ پیداواری عمل میں نہ صرف انسانوں کی اہمیت کم ہوگئی ہے بلکہ عورت خود معاشی طور پر مکمل آزاد ہے۔ لہٰذا اب نہ کسی عورت کے ایک مرد سے جڑے رہنے کی کوئی ضرورت ہے نہ شادی کی، نہ عصمت کوئی قابل لحاظ شے ہے نہ حیا کی کوئی ضرورت ہے۔نتیجے کے طور پر خاندان کے بنیادی ادارے کی ساری اساسات ختم ہوگئیں۔
اس پس منظر کو اگر آپ ذہن میں رکھیں تو آپ کو سمجھ میںآئے گا کہ کیوں اہل مغرب بغیر شادیوں کے ساتھ رہتے ہیں، کیوں خاندان کا ادارہ کمزور ہوچکا ہے، کیوں وہ شادی کے بعد بھی دیر سے اور کم بچے کرتے ہیں، کیوں عورتیں رسیاں تڑا کر گھر سے باہر نکل آنا ضروری سمجھتی ہیں اور کیوں جنسی تسکین کے لیے وہ ہر رکاوٹ کو پھلانگنا باعث فخر سمجھتے ہیں۔
مسلمان اہل علم کی ذمہ داری
ہمارے مسلم معاشرے بھی بدقسمتی سے اسی راہ پر چل پڑے ہیں جو اہل مغر ب کا راستہ ہے۔ ایک طرف ہمارے معاشرے صنعتی دور میں داخل ہوچکے ہیں جس کے اپنے تقاضے اور نتائج واثرات ہیں۔دوسری طرف سیٹلائٹ، کیبل اور انٹرنیٹ کے ذریعے مغربی افکار اور اخلاقی بگاڑ ہمارے گھروں میں داخل ہوکر لوگوں کے ذہنوں کو مسموم کررہے ہیں۔ تیسری طرف ہماری پڑوسی ہندو تہذیب مغرب کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے بعد اس کا بگاڑ ہمار ی زبان میں بالخصوص ہماری عورتوں تک پہنچارہی ہے۔ ان سب کے ساتھ ہماری اشرافیہ اور حکمران طبقات کا بڑا حصہ اوپر بیان کردہ مغربی افکار کے پروردہ ہیں اور اس فکر کو دن رات عوام میں روشن خیالی اور خواتین کے حقوق کے نام پر ، پھیلانے کے لیے کوشاں ہیں۔
ان حالات میں اہل مغرب کی جنسی بے راہ روی پر شور مچانے سے زیادہ اہم کام یہ ہے کہ ان تمام مغربی افکار و تحقیقات پر قرآن کی روشنی میں تنقید کی جائے جو اس اخلاقی بگاڑ کو جواز فراہم کرتی ہیں۔ یہ کام مسلمان اہل علم کے کرنے کا ہے۔ اگر انہوں نے یہ کام برقت نہ کیا تو اندیشہ ہے کہ مغربی تہذیب کا یہ طوفان ہماری مذہبی اور معاشرتی اقدار کو ساتھ بہاکر لے جائے گا۔ اس کے ساتھ ایک بہت اہم کرنے کا کام یہ بھی ہے کہ فکرِ آخرت کے تصور کو بھی عام کیا جائے کیونکہ مغربی تہذیب کے زہر کا حقیقی تریاق اگر کوئی ہے تو یہی ہے۔
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ مغربی نقطۂ نظر بیان کرنے کے بعد خود میری یہ ذمہ داری تھی کہ میں اس کا جواب دوں۔ میں ایسا کرنا بھی چاہتا تھا۔ تاہم اس کا جواب تھوڑا تفصیل طلب ہے اور اگر اسی موقع پر میں اسے بیان کرنا شروع کردوں تو ان قارئین کے اعتبار سے جو صرف ایک سفر نامے کو ہی پڑھنا چاہتے ہیں یہ بحث بہت زیادہ طویل ہوجائے گی۔ اس لیے اسے میں کسی اور مناسب وقت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔ وہ وقت انشاء اللہ جلد ہی آئے گا۔
(جاری ہے.اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)
( ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔