30 لاکھ افغانوں کی قابل عزت واپسی
امریکی صدر ٹرمپ کی متنازعہ ٹویٹ کے بعد پاکستان افغان مہاجرین کی مکمل طور پر وطن واپسی میں جس قدر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہا ہے اگر اس طرح کی سعی پہلے کی جا چکی ہوتی تو آج نہ صرف افغان مہاجرین کی وطن واپسی مکمل ہوچکی ہوتی بلکہ پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے اور حقانی نیٹ ورک کی پاکستان میں موجودگی جیسے لغو الزامات کا سامنا نہیں بھی نہ کرنا پڑتا۔
پاکستان میں افغان مہاجرین ہی کے بھیس میں دہشت گردوں سے لے کر حقانی نیٹ ورک کے کارندوں تک بلکہ سی آئی اے' را اور موساد کے ایجنٹ بھی موجود ہوسکتے ہیں۔
بلاشبہ افغان مہاجرین کی غالب ترین اکثریت کا مقصد محض ترک وطن کرنے کے بعد روز گار اور کاروبار کرکے یہیں سکونت اختیار کرناہے۔ اتنی بڑی تعداد میں افغان مہاجرین میں یہ امتیاز کرنا مشکل ہے کہ حقیقی مہاجرین کون ہیں اور ان کے بھیس میں گھس بیٹھئے کون ہیں؟
افغان مہاجرین کے جرائم میں ملوث ہونے کے معاملات کوئی افسانوی بات نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ اغواء برائے تاوان کی وارداتیں اور افغانستان کے علاقے سے بھتے کی کالیں اور رقوم کی وصولی جیسے مسائل میں اگرچہ کچھ کمی آئی ہے لیکن ابھی تک ان مسائل سے مکمل طور پر چھٹکارا ممکن نہیں ہوسکا۔
ان تمام مشکلات و مسائل سے قطع نظر بھی دنیا میں کہیں بھی کسی دوسرے ملک کے شہریوں کو اس قدر سہولتوں سے بھرپور مواقع نہیں دئیے گئے جو پاکستان میں افغان مہاجرین کو اب تک حاصل ہیں۔
انہی عناصر کے باعث ہونے والے واقعات کو بنیاد بنا کر اگر پاکستان ہی کو مطعون کیا جانے لگے تو پاکستان کے پاس ان عناصر کی واپسی کے علاوہ کوئی اور صورت کیا باقی رہ جاتی ہے۔
خود امریکہ کی پالیسی میں مہاجرین تو درکنار قانونی طور پر امریکہ میں مقیم افراد اور امریکہ اور یورپی ممالک جانے کے خواہشمند افراد سے جو سلوک روا رکھا جانے لگا ہے اس کے بعد امریکہ اور عالمی برادری کے پاس پاکستان سے افغان مہاجرین کی مزید میزبانی اور ان کو مہلت دینے کے مطالبے کا جواز ہی باقی نہیں رہتا۔
جہاں تک افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے لئے وسائل کی فراہمی کا سوال ہے ان لوگوں کی پناہ کا مقصد پورا ہونے یا نہ ہونے کے بعد اب یہ امریکہ ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی وطن واپسی' بحالی اور آبادی کاری کے انتظامات کرے۔
امریکہ کو اس ذمہ داری کو اٹھانے سے اب پس و پیش نہیں کرنا چاہئے۔ پاکستان میں لاکھوں افغان مہاجرین کی موجودگی میں ان عناصر کی پہچان اور ان کے خلاف کارروائی ممکن ہی نہیں جس کاامریکہ مطالبہ کرتا آیا ہے۔
جب افغانوں کی واپسی مکمل ہو جائے گی تو اس کے بعد ہی اس امر کا جائزہ لینا ممکن ہوگا کہ کتنے پاکستانی اور کس کس علاقے کے افراد مشکوک سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور کس حد تک ہیں ان کے خلاف کس قسم کی کارروائی کی ضرورت ہے اور روک تھام کا عمل کیسے ممکن ہے۔
جہاں تک افغان حکومت کا تعلق ہے اس کی کمزور پوزیشن بھی خطے میں عدم استحکام اور دہشت گردوں کے لئے تقویت کاباعث ہے۔
افغانستان میں ایک مستحکم حکومت کے قیام میں امریکہ کی ذمہ داریاں اہم ہیں خود افغان حکمران اس امر کا واضح طور پر اظہار کررہے ہیں کہ امریکی امداد کے بغیر ان کی حکومت نہیں چل سکتی جس کا واضح مطلب یہی نکلتا ہے کہ وہ داخلی استحکام کے قابل نہیں اور نہ ہی وہ لاکھوں مہاجرین کی واپسی کے متحمل ہوسکتے ہیں۔
اس طرح کی صورتحال میں امریکہ نہ تو افغانستان میں قیام امن کی ذمہ داریوں پر توجہ دے رہا ہے اور نہ ہی اس کو خطے میں دوسرے ممالک کے کردار کااعتراف ہے۔
پاکستان کو کٹہرے میں کھڑے کرنے کی زیادتی جب تک ہوتی رہے گی اور مسائل کو سمجھنے کی بجائے الزامات اور انگشت نمائی کی صورت جاری رہے گی تب تک خطے میں امن و استحکام کی امیدیں پوری ہونا مشکل امر ہوگا۔ پاکستان نے افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے لئے جس حتمی اقدام کا فیصلہ کیا ہے اس پر عمل پیرا ہونے کے علاوہ اب کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں رہ گیا ۔
جس میں اب نرمی کی گنجائش نہیں اور نہ ہی اس میں توسیع کی جانی چاہئے تاکہ یہ معاملہ اس مرتبہ حل ہو اور امریکی تحفظات دور کرنے کی راہ ہموار ہو اور پاکستان پرمزید الزامات نہ لگیں۔
پاکستان میں 13 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین رجسٹر ہیں۔ جن میں سے وطن واپس جانے والے پناہ گزینوں کی تعداد 2016 میں تقریباً 3 لاکھ 70 ہزار تھی جو 2017 کی پہلی تین سہ ماہی میں 50 ہزار تک رہی۔اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر)نے کہا کہ 2017 ء کے درمیان میں 160 افغان پناہ گزینوں کے وفد کو پاکستان سے افغانستان کا دورہ کرایا گیا تھا تاکہ انہیں اس بات کا یقین دلایا جائے کہ ان کی واپسی پر ان کی رہائش ، کام، صحت اور تعلیم کے حوالے سے اقدامات کیے گئے ہیں۔
پاکستانی حکومت اور عوام دونوں ہی اب اپنے مہاجرین بھائیوں کی وطن واپسی کیلئے پوری طرح خواہاں ہیں تاکہ وہ واپس جاکر اپنے ملک کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ ان کو اپنے ملک واپس جانے میں کسی تردد کا شکار نہیں ہونا چاہئے اور واپسی کی راہ لینی چاہئے۔
جہاں تک ان کے کاروبار سمیٹنے کا تعلق ہے اس کیلئے ان کو بہتر مواقع دیئے گئے مگر چونکہ افغان تاجر اور کاروباری لوگ واپسی کے خواہاں ہی نہیں اسلئے وہ ہر بار کسی نہ کسی طرح توسیع کے مواقع پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں مگر اس مرتبہ صورتحال مختلف ہے۔ پاکستان کو مقررہ ڈیڈلائن میں کسی قسم کی توسیع نہیں کرنی چاہئے اور افغان تاجروں کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ جلد سے جلد اپنے وطن واپسی کا فیصلہ کریں۔
وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ناصر جنجوعہ کا کہنا ہے کہ طالبان نے افغان مہاجرین کو استعمال کیا کیونکہ افغان مہاجرین کی شکل میں طالبان کو پناہ گاہیں مل جاتی ہیں۔
یہ لوگ خالی ہاتھ سرحد پار کرتے ہیں اور دوسری جانب جا کر لڑتے ہیں۔واپسی پر وہ پھر شریف آدمی دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ مہاجرین منشیات سمگلنگ اور دہشت گردی میں استعمال ہوتے ہیں۔
اس کے لئے سرحدوں پر نگرانی کے نظام کو موثر بنانا ضرروی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم ڈبل گیم کھیل رہے ہیں جوغلط ہے۔ ہم امن پسند قوم ہیں اور افغانستان میں بھی امن کی خواہش رکھتے ہیں۔
ہمارے دل افغانستان کے لیے دھڑکتے ہیں۔ہم نے افغانیوں کے ساتھ اپنے گھر اور دسترخوان بانٹے ہیں۔عالمی برادری چند ڈالر سالانہ فی مہاجر دے کر سمجھتی ہے کہ اس نے اپنا کام کر دیا۔
ہمیں افغان بھائیوں سے ہمدردی ہے لیکن ہمیں 30 لاکھ مہاجرین کے بدلے کچھ نہیں ملا۔ افغان مہاجرین کے بوجھ کے باعث ملکی معیشت کو100ارب کا خسارہ برداشت کرنا پڑا۔
پاکستان نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ الزامات لگانے کے بجائے ملک میں موجود 30لاکھ افغان پناہ گزین کی قابلِ عزت واپسی کے لیے امدادی پیکج فراہم کرے۔ وزیر داخلہ اور ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان سے یہ امید نہ رکھی جائے کہ حکام 30لاکھ افغان مہاجرین کا جائزہ لے کر یہ بتائیں کہ ان میں سے کون امن پسند ہے اور کون دہشت گردی میں ملوث ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ جب مہاجرین اپنے ملک واپس لوٹ جائیں گے تو پاکستان اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کی عدم موجودگی کی ضمانت دے سکتا ہے۔