ایک دن ’’بالا اُسترا‘‘ کے ساتھ

ایک دن ’’بالا اُسترا‘‘ کے ساتھ
ایک دن ’’بالا اُسترا‘‘ کے ساتھ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قارئین! جانداروں سے بھری اِس زمین پر، یوں سمجھئے کسی ’’حجام‘‘ کا وجود ہی، انسان کو خوبصورت انسان کا رُوپ دے سکتا ہے، وگرنہ انسان کے لئے اپنا حلیہ، اپنا حوالہ دُرست رکھنا کتنا دشوار ہوتا، اس کا اندازہ لگانا نہایت مشکل ہے۔ شاید ہی انسانوں میں کوئی ایسا ہوگا جسے کسی ’’حجام‘‘ کی ضرورت پیش نہ آئی ہوگی۔

دیکھا جائے تو ماسوائے خواتین کے، ہر کسی کو ’’حجام‘‘ کے پاس جانا پڑتا ہے (کیونکہ خواتین کی آرائش و زیبائش کے باب میں تو خیر سے ایک علیحدہ مضمون درکار ہے) بہرحال روزانہ نہ سہی، ہفتہ، مہینہ میں ایک بار تو لازماً ’’حجام‘‘ سے پالا پڑتا ہے، کیونکہ اِس کے بغیر آدمی ’’سرخرو‘‘ ہی نہیں ہو سکتا۔

ویسے تو شہر کا شہر حجاموں سے بھرا پڑا ہے، مگر جو ’’خصوصیات‘‘ ہمارے محبوب حجام، اقبال خاں المعروف ’’بالا اُسترا‘‘ میں پائی جاتی ہیں وہ ہر کسی کے نصیب میں کہاں؟ آپ بیک وقت ’’حجام‘‘ بھی ہیں، انسانِ مہربان اور راحتِ دل و جان بھی ہیں۔ بچپن ہی سے آپ کی نظر ستاروں کی بجائے ’’اُستروں‘‘ میں استوار رہی اور زبان ’’قینچی‘‘ کی شہسوار رہی۔

آپ کے پاس آ کر آدمی ایک آدھ گھنٹے میں، دنیا بھر کے ٹی۔وی چینل اور معروف اخباری ’’شہہ سرخیاں‘‘ اپنے کانوں میں اُنڈیل سکتا ہے اور سیٹ چھوڑنے سے پہلے کئی خیالوں سے کھیل سکتا ہے۔ آپ نہایت قلیل عرصے میں بے پناہ ترقی کرتے ہوئے معمولی ملازم سے شہر کے ایک متمول علاقے میں اپنے ذاتی سیلون کے مالک بنے۔ چلئے، تمہید چھوڑتے ہیں اور آپ سے ملاقات کرتے ہیں۔


سوال: اقبال خاں صاحب! آپ ’’بالا اُسترا‘‘ کے نام سے مشہور ہیں، لوگ جب آپ کو اِس نام سے پکارتے ہیں تو آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟
جواب: جناب دیکھیں! یہ تو دراصل لوگوں کی مجھ سے محبت کی علامت ہے اور پیار میں تو اکثر ناموں کا ادل بدل ہو ہی جاتا ہے۔

جیسے محبت میں آپ اپنے بچوں کو یا بیوی کو کسی دیگر نام سے بھی مخاطب کر لیتے ہیں۔ چونکہ میرا کام ہی اُسترے، قینچی یا کنگھے وغیرہ سے کھیلنا ہے تو یار لوگ اگر مجھے ’’اُسترا‘‘ کہہ لیتے ہیں تو کیا فرق پڑتا ہے؟ (ہنستے ہوئے) لیکن شُکر ہے کہ ’’بلیڈ‘‘ یا ’’قینچی‘‘ وغیرہ نہیں کہتے، کیونکہ یہ الفاظ جیب کتروں کے القاب میں استعمال ہوتے ہیں۔

سوال: سُنا ہے آپ فنِ ’’گیسو تراشی‘‘ کے علاوہ بھی کچھ ’’کمالات‘‘ رکھتے ہیں، آپ ایک ’’ملازم‘‘ کی حیثیت سے اس شہر میں آئے اور قلیل عرصے میں ذاتی سیلون کے مالک بن گئے۔ اِس بے تحاشا ترقی کے راز سے کچھ پردہ اُٹھائیں گے؟


جواب: (تھوڑی سی ترنگ میں آتے ہوئے) سرکار! وقت بدل چکا ہے اور مسلسل بدل رہا ہے۔ پہلے لوگ ہمیں ’’کمی کمین‘‘ سمجھا کرتے تھے، مگر آج کسی ’’ترکھان‘‘ کا ہونہار بیٹا کسی بڑے ’’فرنیشرز مارٹ‘‘ کا مالک ہے، کسی ’’موچی‘‘ کا لائق فرزند ’’فُٹ ویئر ہاؤس‘‘ چلا رہا ہے اور ہمارے بعض ذہین و فطین بچوں نے تو ملٹی نیشنل کمپنیاں بنا لی ہیں۔ مَیں نے تو ایک معمولی ’’ہیئر کٹنگ سیلون‘‘ بنایا ہے۔

پھر بھی، الحمدللہ، مَیں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہوں۔ دراصل میری ترقی میں میرے بڑے بھائی ’’افضال خاں‘‘ المعروف ’’چوپڑہ‘‘ کا بڑا ہاتھ ہے۔ کسی دن اِن کا ’’ہاتھ‘‘ بھی آپ کو دکھاؤں گا۔ (ہم نے بے اختیار ’’چوپڑہ‘‘ صاحب کی طرف نظر اُٹھائی تو وہ مسکرا پڑے)۔


سوال: ’’بالا اُسترا‘‘ صاحب! ہم تو آپ کے دیگر ’’کمالات‘‘ بھی جاننا چاہتے ہیں جن کی بدولت آپ کی شُہرت آسمانوں کو چھو رہی ہے؟


جواب: حضور! قصّہ دراصل یہ ہے کہ جب میری اُنگلیاں کسی ’’کلائنٹ‘‘ کے سر پر کام کر رہی ہوتی ہیں تو اُس کی جسمانی حرکات و سکنات سے مَیں اُس کے موڈ کا اندازہ کر لیتا ہوں اور اُس کی خواہش و طلب کے مطابق زبان بھی قینچی کی طرح چلاتا چلا جاتا ہوں۔

میرے پاس ہر شعبہ زندگی کے لوگ آتے ہیں۔ اگر کوئی فیکٹری مالک آئے تو مزدوروں، کاریگروں کی ’’بدمعاشیوں‘‘ کا راگ جگا دیتا ہوں۔ کوئی ’’اداکار‘‘ آ جائے تو ’’پروڈیوسرز‘‘ پر لعن طعن کرنا شروع کر دیتا ہوں۔

یہی نہیں اُن سے بھی بہت کچھ سیکھتا رہتا ہوں۔ میرے بڑے بھائی ’’چوپڑہ‘‘ نے کامیابی کا گُر یہی سمجھایا ہے کہ ’’خوشامد‘‘ سے بڑی کوئی شئے نہیں ہوتی، لہٰذا میں اپنے ’’کلائنٹ‘‘ کی دل و جان سے خوشامد کرتا ہوں۔ نتیجتاً میرا کلائنٹ مطمئن ہو کر رخصت ہوتا ہے اور معاوضہ کے ساتھ اپنی مسکراہٹ بھی عنایت کرتا ہے۔


سوال: ’’بالا اُسترا صاحب‘‘ دیکھیں یہ چیزیں تو ہر دکاندار کی بنیادی تعلیمات کا حصّہ ہوتی ہیں، آپ کی ہوشربا ترقی کے پیچھے کچھ اور بھی ’’ٹوٹکے‘‘ ہوں گے۔ مناسب سمجھیں تو اُن کا ذکر ہو جائے؟


جواب: جنابِ والا! بدلتے زمانے کے اطوار کچھ ایسے ہوتے جا رہے ہیں کہ اب نئی نسل کے لڑکے بھی، لڑکیوں کی طرح فیس کریمیں، فیس مساج، فیس واش اور فیس پالش وغیرہ کی طرف مائل ہونا شروع ہو گئے ہیں، وقت کے تیور دیکھتے ہوئے، ہم دونوں بھائیوں نے بھی ’’ماہر بیوٹیشنز‘‘ کی سی ’’صلاحیتیں‘‘ حاصل کر لی ہیں۔ آپ یقین کریں، نہایت معمولی اشیاء یعنی لیموں، بالائی، ملتانی مٹی اور چند دیگر اجزا (جن کے نام بیان کرنا ’’پیشہ ورانہ بددیانتی‘‘ کے زمرے میں آتا ہے) ہی ہماری ’’بیوٹی پراڈکٹ‘‘ کا حصہ ہوتی ہیں جن پر برائے نام لاگت اُٹھتی ہے، مگر ’’وصولی‘‘ نہایت معقول ہوتی ہے۔

کچھ عرصہ پیشتر ’’بیوٹی پارلرز‘‘ محض چند پوش علاقوں تک محدود تھے، جہاں خواتین بھی اکثر ’’چھپ چھپا‘‘ کر جایا کرتی تھیں، مگر آج کل تو یہ ہر محلے، ہر گلی میں ’’وبا‘‘ کی طرح پھیل چکے ہیں۔ پہلے تو فقط خواتین ہی بناؤ سنگھار کا شوق رکھتی تھیں، مگر شاید وقت کا پہیّہ الٹا چلنا شروع ہو گیا ہے اور لڑکیوں سے زیادہ لڑکے اس ’’وبا‘‘ کا شکار نظر آ رہے ہیں۔

حد تو یہ ہے کہ آپ جیسے ’’ادھیڑ عمر‘‘ لوگ بھی اپنی ’’صحت‘‘ کا بجٹ خود کو ’’خوبصورت‘‘ بنانے پر لٹا رہے ہیں۔ یہ وہ چند عوامل ہیں جو مجھے مالی ترقی دینے میں مددگار بنے

مگر اضافی طور پر بتاتا چلوں کہ پہلے ہم نے اپنے ’’کلائنٹ‘‘ کی توجہ اُس کے چہرے کی رنگت یا جھریوں وغیرہ کی طرف مبذول کرانا ہوتی ہے، حالانکہ اُس کی ’’رنگت‘‘ والی ’’کاری گری‘‘ میں سامنے والے ’’آئینے‘‘ کا بھی ایک ’’کرشمہ‘‘ ہوتا ہے (ہنستے ہوئے) مگر یہ بھی ایک ’’راز‘‘ ہے جو عیاں نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ آج ایک چینل کی ٹیم ’’سرِعام‘‘ ایسی باتوں کی ٹوہ میں لگی رہتی ہے۔


سوال: ’’بالا اُسترا صاحب‘‘ ! ایک طرف تو آپ لوگوں کی خوشامد کرتے ہیں، پھر اُنہی کے چہرے پر ’’نامعلوم‘‘ نقائص کی نشاندہی کرکے، اُن کا علاج فرما کر ’’زرِکثیر‘‘ ہتھیاتے ہیں۔ کیا یہ ’’پیشہ ورانہ بددیانتی‘‘ نہیں اور اسے آپ کی شخصیت کا ’’کھلا تضاد‘‘ نہ سمجھا جائے گا؟


جواب: دیکھیں جناب! یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ جب آپ کسی چیز کو زندگی کا حصّہ بنا ڈالتے ہیں تو پھر آپ ’’اُلّو‘‘ بنتے ہی چلے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر آج کل ہر شخص موبائل فون، سمارٹ فون کا رسیّا ہو چکا ہے، کئی ایسے ’’شہکار‘‘ بھی نظر آئے کہ کھانا پینا موخر کرکے موبائل بیلنس کی فکر کرتے ہیں۔ مگر ہمارا کام تو کچھ ایسا ہے کہ ہمیں اپنے کلائنٹ کے چہرے پر نظر نہ آنے والے داغ بھی دکھانا ہوتے ہیں۔

اس کی مثال یوں بھی ہو سکتی ہے، جیسے آپ کسی پنکچر شدہ ٹیوب میں خوب ہوا بھر دیتے ہیں تو آپ کو وہ سوراخ بھی نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں جو عام حالات میں اُس کے پنکچر ہونے کا سبب نہیں ہوتے۔

اِسی طرح ہم بھی اپنی خوشامدانہ باتوں سے اپنے کلائنٹ میں ’’چاپلوسی‘‘ کی خوب ہوا بھر دیتے ہیں، جس سے اُس کے چہرے پر چھائی ’’کمی‘‘ یا ’’کجی‘‘ اُس کے سامنے آشکار ہو جاتی ہے۔

ہمارے کلائنٹس میں نہایت پڑھے لکھے، تیز طرار لوگ بھی شامل ہیں اور ہر کوئی ہماری ’’کارکردگی‘‘ سے مطمئن واپس جاتا ہے تو اس میں دھوکہ دہی والی تو کوئی بات نہ ہوئی۔

چلیں آپ کی خدمت میں بھی بطور ہدیہ ایک ’’بیوٹی ٹیوب‘‘ پیش کرتا ہوں جس کے استعمال کی ضرورت آپ کو اپنی بیگم سے بھی زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔ میرا دعویٰ ہے، یہ ٹیوب استعمال کرنے سے آپ کی اہمیت اپنے ہی گھر میں ڈبل ہو جائے گی اور آپ کے قلم کی روانی میں اضافہ ہو جائے گا، مگر اِس ناچیز کا خیال رکھئے گا! (یہ کہہ کر ’’بالا اُسترا صاحب‘‘ نے میز کی دراز سے ایک ٹیوب نکال کر ہمیں تھمائی اور اجازت لے کر ایک نئے آنے والے کلائنٹ کی جانب متوجہ ہو گئے)۔

مزید :

رائے -کالم -