ایم کیو ایم پاکستان تقسیم

ایم کیو ایم پاکستان تقسیم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کراچی( سٹاف رپورٹر،مانیٹرنگ ڈیسک ،نیوز ایجنسیاں)ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار اور رابطہ کمیٹی کے درمیان تاحال ڈیڈلاک برقرار ہے۔ ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کی جانب سے عبدالرف صدیقی، سردار احمد اور جاوید حنیف پر مشتمل 3 رکنی وفد نے 2 گھنٹے تک پارٹی سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کو منانے کی کوشش کی لیکن وہ فاروق ستار کو ایم کیو ایم پاکستان کا جنرل ورکر کنویشن کا اجلاس ختم کرنے پر رضامند نہ کرسکے۔ فاروق ستار نے الیکشن کمیشن کو سینیٹ انتخابات کے لئے ایم کیو ایم کو 20فارم جاری کی درخواست کی دی ہے دوسری جانب فاروق ستار نے 3 رکنی وفد کی جانب سے پیش کردہ تجاویز مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بہادر آباد جانے سے انکار کردیا جب کہ انہوں نے ناراضگی ختم کرنے کے لیے اپنے مطالبات پیش کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو مجھ سے ملنا ہے تو پی آئی بی آجائے۔ادھر رابطہ کمیٹی کا وفد مذاکرات کی ناکامی پر دوبارہ بہادرآباد روانہ ہوگیا تاہم وفد نے میڈیا سے بات کرنے سے انکار کردیا۔ اس موقع پر رؤف صدیقی نے کہا کہ امید اچھی ہے، معاملات جلد حل ہوجائیں گے جب کہ بہادر آباد میں فاروق ستار کی تجاویز پر غور کیا جائے گا۔واضح رہے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر کامران ٹیسوری کو سینٹر بنانے کے معاملے پر 2 دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ہے جب کہ رابطہ کمیٹی کی جانب سے کامران ٹیسوری کی رکنیت معطل کرنے کے بعد معاملہ مزید شدت اختیار کرگیا۔دوسری طرفمتحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہ فاروق ستار نے کہا ہے کہ رابطہ کمیٹی کے ارکان نے میرے منع کرنے کے باوجود اجلاس منعقد کرکے پارٹی کے آئین کی خلاف ورزی کی اس وجہ سے ڈمی سربراہ بننا منظور نہیں،میں اب بلیک میل ہونا نہیں چاہتا، میری شرافت کو میری کمزوری نہ سمجھا جائے،اگر کارکنوں کو ان کے ساتھ جانا ہے جنہوں نے پارٹی نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی اور بڑے فیصلے کیے تو یہ میری سربراہی پر سوال ہے، یہ مجھ پر عدم اعتماد ہے، رابطہ کمیٹی ارکان مجھ سے معافی مانگیں،یہ آزمائش ہے یا سازش میں کچھ نہیں کہہ سکتا، رابطہ کمیٹی کے کچھ اراکین نے ابھی جو پریس کانفرنس کی ہے وہ تنظیمی نظم و ضبط کی خلاف ورزی ہے اور بڑی خلاف ورزی انہوں نے یہ کی کہ انہوں نے میری اجازت اور منع کرنے کے باوجود بہادر آباد پر اجلاس بلایا۔گزشتہ روزپی آئی بی مرکز پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے فاروق ستار نے کہا کہ کارکنوں سے فیصلہ لینا چاہتا ہوں کہ آپ کو بااختیار سربراہ چاہیے یا بے اختیار ڈمی سربراہ، اگر ایسا ہی ڈمی سربراہ بنانا ہے تو مجھے یہ سربراہی منظور نہیں۔فاروق ستار نے کہا کہ رہنماوں کو دھوکا دے کر میرے نام سے بہاد آباد پر بلایا گیا، جس بات کو ایشو بنایا جارہا ہے وہ اصل ایشو نہیں ہے، 15 ماہ سے مجھے ہر فیصلہ کرنے میں لوگوں کی منت سماجت کرنی پڑے تو کیسی سربراہی؟ اگر آپ لوگوں کو کوئی اور سربراہ منتخب کرنا ہے تو بتادیں۔فاروق ستار نے کہا کہ اصل ایشو یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو ایسا سربراہ چاہیے جو ڈمی ہو۔ انہیں ایسا سربراہ نہیں چاہیے جو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے، کامران ٹیسوری کو 6 ماہ کے لیے کیوں معطل کردیا گیا؟ اس طرح سے میں پارٹی کو نہیں چلاسکتا، مجھے فیصلوں کا اختیار درکار ہے اگر مجھے سربراہ بنایا جارہا ہے تو فیصلوں میں میری حکمت کو بھی سمجھا جائے اگر میرے فیصلوں میں حکمت نہیں تو مجھے سربراہ ہونا ہی نہیں چاہیے، کنوینر متحدہ پاکستان نے کہا کہ ایک جلسہ آپ کریں اور ایک جلسہ میں، آپ نشتر پارک میں کریں اور ایک جلسہ میں مزار قائد پر، ہم چاہے دو افراد رہ جائیں لیکن میں ایسی سربراہی قبول نہیں کروں گا جس میں لوگوں کی منتیں کرنی پڑیں، اگر پارٹی میں نااتفاقی تھی تو بیٹھ کر بات کی جاسکتی تھی نہ کہ اس طرح اجلاس بلا کر میڈیا پر اعلانات کردیے جائیں، یہ جو کچھ ٹی وی اسکرین پر نظر آرہا ہے وہ ایک فیصلے کی نہیں 15 ماہ کی کہانی ہے۔رہنما متحدہ پاکستان نے کہا کہ میں اب بلیک میل ہونا نہیں چاہتا، میری شرافت کو میری کمزوری نہ سمجھا جائے،اگر کارکنوں کو ان کے ساتھ جانا ہے جنہوں نے پارٹی نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی اور بڑے فیصلے کیے تو یہ میری سربراہی پر سوال ہے، یہ مجھ پر عدم اعتماد ہے، رابطہ کمیٹی ارکان مجھ سے معافی مانگیں۔فاروق ستار نے کہا کہ سینیٹ کے ٹکٹوں کا فیصلہ بعد کی بات ہے لیکن پہلے یہ بات ہے کہ میرے علم میں لائے بغیر کامران ٹیسوری کی معطلی کی گئی، سینیٹ کا الیکشن جسے لڑنا ہے لڑ لے مجھے پارٹی بچانی ہے، مجھ پر ہر روز سوال اٹھائے جاتے ہیں، میری اہلیت پر سوال کیا جاتا ہے اس لیے کہ میمن بچہ ہوں؟ 1998 میں حقیقی بن گئی تھی لیکن 2018 میں حقیقی بننے نہیں دوں گا۔رہنما متحدہ پاکستان نے کہا کہ ایسا نہیں کہ کامران کا نام زیر غور نہیں تھا بلکہ سینیٹ کے امیدواروں میں کامران کا نام آچکا تھا، چوتھی سیٹ پر مقابلہ تھا تو شبیر قائم خانی نے اختیار مجھے دیا کہ آپ جسے چاہیں منتخب کرلیں۔ انہوں نے پریس کانفرنس کرنے والے رابطہ کمیٹی کے ارکان کو چیلنج دیا کہ اگر کارکنان آپ کے ساتھ ہیں تو آپ پارٹی چلائیں اگر کارکنان میرے ساتھ ہیں تو اب میں پارٹی چلا کر دکھاوں گا۔فاروق ستار نے کہا کہ رابطہ کمیٹی کے جن ارکان نے غیر آئینی اجلاس اور پریس کانفرنس کی وہ آج (بدھ کو ) جنرل باڈی اجلاس میں پیش ہونے تک عارضی طور پر معطل ہیں، میں جذباتی ہوکر یہ بات نہیں کہہ رہا لیکن آج کا یہ کارکنان کا جنرل باڈی اجلاس مجھے یہ اختیار دے، جس پر وہاں موجود لوگوں نے اس بات کی تائید کی۔پریس کانفرنس کے موقع پر وہاں موجود کارکنوں نے فاروق ستار کے حق میں نعرے باز ی کرتے ہوئے رابطہ کمیٹی کے ارکان کے خلاف شرم کرو ڈوب مرو کے نعرے لگائے۔
فاروق ستار
کراچی (اسٹاف رپورٹر) سینیٹ انتخابات ایم کیو ایم پاکستان کے لیے ڈراؤنا خواب بن گئے ، بعض رہنماؤں کی جانب سے ایم کیو ایم کو تقسیم سے بچانے کے لیے سینیٹ انتخابات میں حصہ نہ لینے کی تجویز سامنے آگئی ،ایم کیو ایم پاکستان نے فوری طور پر اندرونی اختلافات ختم نہیں کیے تو بہت سے ارکان اسمبلی پاک سرزمین پارٹی اور پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں۔ذرائع کے مطابق کامران ٹیسوری کے ٹکٹ کے معاملے پر ہونے والے اختلافات نے ایم کیو ایم پاکستان کو عملی طور پر دو دھڑوں میں تقسیم کردیا ہے ایم کیو ایم کی جانب سے نسرین جلیل ،فروغ نسیم اور امین الحق کے ناموں پر اتفاق رائے تھا تاہم کامران ٹیسوری کی وجہ سے معاملات بگڑ گئے ۔پارٹی کے سینئر رہنما کامران ٹیسوری کی بجائے شبیر قائم خانی کو پارٹی ٹکٹ دینے کے حامی تھے ۔ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم کے بعض رہنماؤں کی جانب سے یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ پارٹی کو بچانے کے لیے سینیٹ انتخابات میں حصہ نہ لیا جائے تاہم اس تجویز پر عملدرآمد مشکل نظرآرہا ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر ایم کیو ایم پاکستان کے اندرونی اختلافات ختم نہیں ہوئے تو اس کو سینیٹ انتخابات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کے لیے سینیٹ کی دو نشستوں کا حصول بھی انتہائی مشکل ہوجائے گا ۔پاک سرزمین پارٹی اور پاکستان پیپلزپارٹی نے ایم کیو ایم میں پیدا ہونے والے اختلافات پر گہر ی نظر رکھی ہوئی ہے اور پس پردہ طور پر ایم کیو ایم پاکستان کے ارکان سندھ اسمبلی کے ساتھ رابطے کیے جارہے ہیں ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر ایم کیو ایم پاکستان نے فوری طور پر اندرونی اختلافات ختم نہیں کیے تو بہت سے ارکان اسمبلی پاک سرزمین پارٹی اور پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں ۔پیپلزپارٹی کے حلقے پر امید ہیں کہ وہ ایم کیو ایم کے اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سندھ سے سینیٹ کی 10نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں ۔دوسری جانب پاک سرزمین پارٹی جس کے سند ھ اسمبلی میں 8ارکان ہیں اس نے سینیٹ انتخابات کے لیے 10کاغذات نامزدگی حاصل کیے ہیں ۔پی ایس پی کے رہنماؤں کی کوشش ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے کچھ ارکان کی حمایت حاصل کرکے سینیٹ کی ایک نشست کا حصول یقینی بنایا جائے ۔ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے بہت سے ارکان سندھ اسمبلی پی ایس پی کے ساتھ رابطوں میں ہیں اور اگر یہ رابطے کامیاب ہوگئے تو پاک سرزمین پارٹی رضا ہارون کو سینیٹر منتخب کرانے میں کامیاب ہوسکتی ہے ۔
ذرائع