چکوال میں حلقہ بندیوں کا کام فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگیا

چکوال میں حلقہ بندیوں کا کام فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


چکوال(ڈسٹرکٹ رپورٹر)عام انتخابات میں تقریباً ڈیڑھ سو دن باقی رہ گئے ہیں اور ضلع چکوال کی دو قومی اور چار صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر جہاں حلقہ بندیوں کا کام فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگیا ہے وہاں دوسری طرف صرف مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف ہی دو ایسی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں جن کا ان چھ نشستوں پر ابتدائی ہوم ورک تقریباً مکمل ہے اور دونوں جماعتوں کے پاس ہر نشست پر مضبوط سے مضبوط تر امیدوار موجود ہیں جو ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت مسلم لیگ ن کو دیگر تمام اپوزیشن جماعتوں پر نفسیاتی برتری حاصل ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اپنے مسل ضرور بڑھا رہی ہے مگر ابھی تک پیپلز پارٹی کی طرف سے کوئی سنجیدہ تیاری سامنے نہیں آئی ہے۔ پارٹی کی ہائی کمان ہر نشست پر امیدوار لانے کیلئے سنجیدہ ہے مگر ابھی تک ضلع چکوال کی حد تک کوئی مرد میدان سامنے آنے کو تیار نہیں کیونکہ 2013کے الیکشن میں جس بری طرح سے ضلع چکوال کے عوام نے پیپلز پارٹی کا احتساب کیا تھا اس کے زخم ابھی تک ہرے ہیں اور پھر 31اکتوبر کے بلدیاتی انتخابات میں تو پیپلز پارٹی کو اتنی ہمت اور توفیق بھی نہیں ہوئی کہ وہ کم از کم ضلع چکوال کی 71یونین کونسلوں میں کسی بھی جگہ پر چیئرمین اور وائس چیئرمین کے امیدوار ہی سامنے لے آتے ۔ بہرحال پیپلز پارٹی کیلئے ضلع چکوال کی حد تک صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ متحدہ مجلس عمل کا قیام عمل میں آچکا ہے اس میں جماعت اسلامی، جمیعت علمائے اسلام ف ، ملت جعفریہ اور کئی چھوٹی بڑی جماعتیں شامل ہیں مگر ابھی تک ضلع چکوال میں ان کا کوئی باقاعدہ اجلاس منعقد نہیں ہوا جس میں کم از کم امیدوار سامنے لانے کیلئے کوئی سوچ بچار کی جا سکے۔ تحریک لبیک یارسول اللہ کا ایک رسمی اجلاس ضرور منعقد ہوا ہے مگر معلوم ہوا ہے کہ وہ بھی اختلافات رائے کی نظر ہوگیا۔ بہرحال تحریک کے اکابرین سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں کہ تمام ہم خیال مسلکی ساتھیوں کو اس پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جائے۔ پاکستان عوامی تحریک دفاعی پوزیشن پر ہے ، تحریک خدام اہلسنت نے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کی حمایت کی ہے لہٰذا ان کا فیصلہ حلقہNA60کے ٹکٹ سے مشروط ہوگا ، سردار غلام عباس آنے کی صورت میں تحریک خدام اہلسنت یقینی طور پر پاکستان تحریک انصاف کیساتھ جائے گی۔ بہرحال تمام تر مشکل حالات کے باوجود صورتحال بڑی دلچسپ ہے اور سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ حلقہ بندیوں کے قیام کے بعد ہی انتخابی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی۔