سیاست و انصاف کی دھوپ چھاؤں

سیاست و انصاف کی دھوپ چھاؤں
سیاست و انصاف کی دھوپ چھاؤں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

’’پنجاب حکومت کی نااہلی انتہا کو پہنچ چکی۔ صوبائی حکومت سے معاملات نہیں چلائے جا رہے۔ سپریم کورٹ کو توقعات تھیں، شدید مایوس کیا۔ نااہلی کو تحریری حکم کا حصہ بنا رہے ہیں‘‘۔۔۔یہ الفاظ ملک کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کے ہیں جو انہوں نے ریٹائرمنت سے چند روز پہلے ارشاد فرمائے۔ یہ کس طرح کا اعتراف ہے۔

ملک کے باشعور عوام دیکھتے آ رہے ہیں اور جانتے ہیں کہ جناب عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لئے کیسے کیسے جتن کئے گئے۔ کس طرح انہیں سابق چیف جسٹس نے صادق اور امین قرار دیا اور کس طرح تمام ادارے اور میڈیا اسی ایک کام کے لئے وقف کر دیئے گئے۔ بڑے سے بڑے مجرموں کے لئے بھی اپیل کی گنجائش ہوتی ہے اور مقدمہ نچلی عدالت سے بالائی عدالت تک چلتا ہے لیکن عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے میں سب سے بڑی رکاوٹ میاں نوازشریف تھے، لہٰذا ان کے لئے اپیل کی کوئی گنجائش نہ رہنے دی گئی اور براہ راست سپریم کورٹ میں واٹس ایپ سے بننے والی جے آئی ٹی کی رپورٹ لے کر انہیں سیاست کے لئے تاحیات نااہل کر دیا گیا اور اس میں بھی حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ میاں نوازشریف کے خلاف کیس تو پاناما کرپشن کا تھا مگر ان کی نااہلی کے لئے جلدی میں اقامہ کا سہارا لیا گیا اور بلیک لاء ڈکشنری سے بیٹے کی کمپنی فلیگ شپ سے تنخواہ نہ لینے پر بھی اثاثہ ہونے کی منطق پیش کی گئی جبکہ دسمبر 2018ء میں احتساب عدالت نے نواز شریف کو سات سال کی سزائے قید بامشقت سناتے ہوئے فیصلے میں لکھا ہے کہ فلیگ شپ کیس میں نیب نوازشریف کے خلاف کوئی کرپشن ثابت نہیں کر سکا۔
ملک میں نوازشریف کے خلاف کس طرح فضا تیار کی گئی تھی، اس کی ایک ادنیٰ مثال عام انتخابات (25جولائی 2018ء) سے ڈیڑھ دو ماہ پہلے چیئرمین نیب کی طرف سے آنے والا یہ بیان تھا کہ نوازشریف نے منی لانڈرنگ سے 4ارب 90کروڑ روپے بھارت بھجوائے۔ ایک بے سند اخباری کالم کی بنیاد پر اتنا بڑا الزام چیئرمین صاحب کے شایانِ شان نہیں تھا جو کہ سپریم کورٹ کے سابق جج بھی ہیں۔ اس پر بھی کہا جا رہا ہے کہ ہم چہروں کو نہیں کیس کو دیکھتے ہیں۔
’’آپ نے کہہ دیا ہم کو اعتبار آیا‘‘

پنجاب کے انتخابی نتائج مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہونے کی خبر دے رہے تھے مگر وہ شخص جسے بعض لوگوں کے خیال میں نوازشریف کی سزا کو بیلنس کرنے کے لئے نااہل کیا گیا تھا، اسے ’’طیارہ مہم جوئی‘‘ کی پوری پوری اجازت دی گئی اور پھر ترینی مہم کے لوٹے اکٹھے کرکے بزدار حکومت کھڑی کر دی گئی، جس کی نااہلی پر عدالتیں غیظ و غضب کا اظہار کر چکی ہیں۔ چیف جسٹس (ر) ثاقب نثار نے بہت سے معاملات میں خود کو بااختیار چیف جسٹس بلکہ چیف ایگزیکٹو ثابت کیا تھا، مگر بعض معاملات جانے ان کی نظر میں کیوں نہیں آئے۔

ڈالر کی اڑان پر سووموٹو نوٹس لینا ضروری تھا، جس کے نتیجے میں ہوشربا مہنگائی نے غریب عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔ نوازشریف کے چار سالہ دور میں تو ڈالر 108 روپے سے کہیں نیچے 98 روپے پر چلا گیا تھا۔ 29جولائی 2017ء کو جب نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ آیا، اس وقت بھی ڈالر 105روپے کا تھا اور مہنگائی کنٹرول میں تھی۔ جب عمران خان کو حکومت ملی، اس وقت ڈالر 125روپے کا تھا۔ درحقیقت یہ 20روپے کا اضافہ نوازشریف کی نااہلی اور ملکی معیشت کو جھٹکا لگنے کا براہ راست نتیجہ تھا۔

اگر عمران خان کی حکومت ڈالر کو 125 روپے ہی پر رکھنے کا اہتمام کرتی تو قوم اسے غنیمت سمجھتی ، لیکن ان کے تین چار ماہ میں تو ڈالر کی قیمت 15روپے تک بڑھ چکی ہے اور ایک حکومتی عہدیدار تو ڈالر کے 150 روپے تک جانے کی نوید دے چکے ہیں۔

پھر یہ بھی ہوا کہ ڈالر کی قیمت ایک دن میں 8روپے چڑھ گئی تو یوٹرن خان نے فرمایا کہ مجھے تو اگلی صبح پتہ چلا، مگر پھر گورنر سٹیٹ بینک نے اس کا بھانڈا پھوڑ دیا کہ یہ حکومت کا فیصلہ تھا اور وزیر خزانہ بھی اس کا اعتراف کر چکے ہیں۔ ڈالر کی بے تحاشا اڑان سے ملکی قرضوں میں 1300ارب روپے کا اضافہ ہو گیا ہے اور مہنگائی کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔اس پر بھی حکومت کے ترجمان گوئبلز بنے پھرتے ہیں اور کنٹینر سے اترنے کا نام تک نہیں لیتے۔
کالا باغ ڈیم کا مسئلہ بھی قابلِ غور ہے۔اس ڈیم کی بے پناہ افادیت اور تھوڑے عرصے میں تکمیل اس کی ترجیحاً تعمیر کی متقاضی ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے سووموٹو کالاباغ کے بارے میں لیا تھا اور اس غریب قوم کو امید لگی تھی کہ یہ ڈیم اب بن کے رہے گا۔ میڈیا میں اس پر واہ واہ کے ڈونگرے برسائے جانے لگے، لیکن جیسے ہی پی پی پی کے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کالاباغ کی مخالفت میں دو تین بیان دیئے،چیف جسٹس نے چُپ سادھ لی اور پھر بھاشا اور مہمند ڈیم کے لئے چندہ جمع ہونے لگا۔

کاش! چیف جسٹس صاحب اپنے عدالتی اختیارات کا بھرپور استعمال کرکے کالاباغ ڈیم کا فیصلہ کر دیتے تو یہ قوم ہمیشہ کے لئے ان کی احسان مند ہوتی، جبکہ پیپلزپارٹی اسے سیاسی ایشو بنانے میں پیش پیش ہے اور اس نے کالاباغ ڈیم کو ملکی سلامتی کے نقیض قرار دے رکھا ہے۔ بھارت میں کالاباغ ڈیم لیول کے سردار ڈیم کی علاقائی سطح پر بہت مخالفت ہوئی، مگر مرکزی حکومت کا فیصلہ تھا، جسے نہ کانگرس نے روکا نہ بی جے پی نے اور دریائے نرمدا پر واقع سردار ڈیم دو سال پہلے مکمل ہو کر ملکی معیشت کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ اگرچہ چیف جسٹس کے فیصلے پر کالاباغ کی فوری تعمیر شاید پھر بھی ممکن نہ ہوتی، مگر ایک مثال تو قائم ہو جاتی۔

عمران خان کو مسند نشین کرنے کے لئے تحریک لبیک بھی لانچ کی گئی تھی۔ یاد کیجئے نومبر 2017ء کے لبیک دھرنے (راولپنڈی) کے وقت ایک صاحبِ طاقت نے ان لبیک کارکنوں کو رہا کروا کر ان کی جیبوں میں ایک ایک ہزار روپے ڈالے تھے جو پولیس نے گرفتار کئے تھے، لیکن ایک سال بعد کے لبیک دھرنے کے حوالے سے مختلف طرزِ عمل اختیار کیا گیا، کیونکہ اب حکومت مسلم لیگ (ن) کی نہیں، پسندیدہ پی ٹی آئی کی تھی، جبکہ نومبر 2017ء میں پی ٹی آئی نے مسلم لیگی حکومت کے خلاف لبیک دھرنائیوں کی پوری پوری حمایت کی تھی۔ پھر نومبر 2018ء میں خادم حسین رضوی اور افضل قادری نے اعلیٰ عدالتی و عسکری شخصیتوں کے خلاف کھلم کھلا جو توہین آمیز اور باغیانہ زبان استعمال کی تھی، اس پر کوئی سووموٹو نہیں لیا گیا اور کمال برداشت سے کام لیا گیا۔

جنرل پرویز مشرف جن کے خلاف غداری کا مقدمہ ہے، ان کے معاملے میں کمال نرمی سے کام لیا گیا ہے اور سابق چیف جسٹس نے انہیں رینجرز کی سیکیورٹی فراہم کرنے کی عدالتی پیشکش کی تھی، مگر وہ پھر بھی وطن واپس آنے کی جرأت نہیں کر سکے۔
ادھر سابق صدر آصف علی زرداری اومنی گروپ کرپشن کے سلسلے میں الزامات کے باوجود چیلنج دے رہے ہیں کہ ہمت ہے تو انہیں گرفتار کریں۔ان کی ضمانت میں مسلسل توسیع ہو رہی ہے۔ سپریم کورٹ کی مقرر کردہ جے آئی ٹی نے وزیراعلیٰ سندھ کا نام ECL میں ڈلوا دیا تو سابق چیف جسٹس کی طرف سے ڈانٹ پڑی کہ آخر وزیراعلیٰ سندھ کی عزت نفس کا خیال کیوں نہیں رکھا گیا، ان کے وزیراعلیٰ کے منصب کا لحاظ کیا ہوتا۔ اس پر لوگ کہتے ہیں کہ جب نوازشریف وزیراعظم تھے تو ان کی عزتِ نفس اور منصب کا لحاظ کیوں نہ کیا گیا۔

پی ٹی آئی کے دھرنوں اور اس کی نااہل حکومت نے ملکی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔

سرمایہ اور سرمایہ دار ملک سے باہر جا رہے ہیں اور ایک ’’صاحب‘‘ کی طرف سے تاجروں سے معاشی استحکام مین تعاون کی اپیل کی گئی ہے، مگر کم فہم اور تعصب کے مارے بعض صحافی دن رات عمران خان کی نام نہاد ’’دیانتداری‘‘ کے قصیدے پڑھتے نہیں تھکتے۔ایسی دیانتداری جس نے غریب عوام کو ریلیف دینے کے بجائے اس پر مہنگائی اور ظالمانہ ٹیکسوں کا عذاب مسلط کر دیا ہے۔

یہ ’’دیانتداری‘‘ ملک ملک سے قرض مانگنے پر اپنے ہی الفاظ میں خودکشی کیوں نہیں کر لیتی؟ان لوگوں کو ملک کے سنگین مسائل اور ان کے حل کا شعور ہی نہیں۔ یہ کب تک نمائشی کاموں اور پروپیگنڈے سے عوام کو بے وقوف بناتے رہیں گے۔ یہ چند خیمے لگا کر عوام کو کٹے اور مرغیاں پالنے کا درس دینے والے اب بنی گالا کے محلات سے نکل کر سنیں تو سہی:
کہتی ہے ’’ان‘‘ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا!
اب وہ سارے کام خود کر رہے ہیں جن پر مسلم لیگ(ن) کو موردِ الزام ٹھہراتے تھے۔ حلف نامے سے خاتم النبیّن پڑھ نہیں سکتے اور ڈھنڈورا پیٹتے ہیں ریاستِ مدینہ بنانے کا! دوسری طرف سلائی مشینوں سے اربوں کے اثاثے! استغفراللہ! وزارتِ داخلہ وزیراعظم کے کنٹرول میں ہے اور اس کی سی ٹی ڈی نے ساہیوال میں ایک فیملی اور بچوں پر جو ظلم ڈھایا ہے، اس پر آسمان بھی کانپ اٹھا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -