میانمار،فوجی بغاوت کیخلاف احتجاج میں شدت،لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل آئے
ینگون(نیوزایجنسیاں) میانمار میں فوجی بغاوت کیخلاف عوامی احتجاج میں شدت آگئی،اساتذہ سمیت طلبہ بھی فوج کے اقتدار پر قبضے کیخلاف میدان میں آگئے ہیں، طلبہ اور اساتذہ کی بڑی تعداد نے ملک میں فوجی بغاوت اور آنگ سان سوچی سمیت سینئر ڈیموکریٹک رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف شدید احتجاج کیا، اس موقع پر مظاہرین نے ہاتھوں میں سرخ رنگ کے ربن باندھ رکھے تھے اور پلے کارڈز بھی اٹھا رکھے تھے۔عالمی میڈیا کے مطابق احتجاج میں شامل طلبہ اور اساتذہ نے منتخب حکومت کے خاتمے اور فوج کے اقتدار پر قبضے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ملک میں فوجی بغاوت نہیں دیکھنا چاہتے،احتجاجی مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ ملک میں فوجی بغاوت کو ناکام بنانا چاہتے ہیں اور اقتدار پر قبضہ کرنے والوں کے ساتھ کام نہیں کرسکتے،اس موقع پر احتجاجی مظاہرین نے میانمار میں مقبول ہونیوالے تین انگلیوں کا سلیوٹ بھی کیا اور فوج کشی کے خلاف نعرے بازی کی،احتجاج میں شامل اساتذہ نے کہا کہ وہ موجودہ انتظامی نظام کو روکنا چاہتے ہیں جس کے لیے وہ پر امن جدوجہد کررہے ہیں، میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد آنگ سان سوچی کو بھی گرفتار کیا گیا ہے اور ان پر مواصلاتی آلات کی غیر قانونی امپورٹ کا الزام عائد کیا گیا ہے جب کہ پولیس نے سوچی کے گھر سے واکی ٹاکیز برآمد کرنے کا بھی دعوی کیاہے، میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک 130کے قریب سیاستدانوں اور حکام کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ادھرفوجی بغاوت کیخلاف احتجاج روکنے کیلئے ملک گیر سطح پر انٹرنیٹ سروسز بھی معطل کر دی گئیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس بلیک آؤٹ کو ”گھناؤنا اور ناقابل قبول“عمل قرار دیا ہے۔دوسری جانب میانمار کیعلاقے کی سرکردہ باڈی کے سابق رکن کے قافلے پر مسلح حملے میں کم از کم 9شہری، 3پولیس اہلکار ہلاک،8عام شہریوں سمیت 13پولیس اہلکار زخمی ہوگئے ہیں۔دفاعی خدمات دفتر کے کمانڈر انچیف کی جانب سے ہفتے کو جاری کیے گئے بیان کے مطابق میانمار کے کوکانگ علاقے کی مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی کے سابق رکن یو کھن مونگ لوین کی زیرقیادت قافلے پر میانمار نیشنل ڈیموکریٹک الائنس آرمی(ایم این ڈی اے اے)کے 20ممبران کے ایک گروہ نے جمعہ کی سہ پہر حملہ کیا جب وہ لاشیا سے شان ریاست میں واقع کوکانگ خود انتظام کردہ علاقے کے دارالحکومت لاکائی جا رہے تھے۔
میانمار احتجاج