پاکستان کے بغیر افغانستان میں امن کا قیام ممکن نہیں:امریکہ

پاکستان کے بغیر افغانستان میں امن کا قیام ممکن نہیں:امریکہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعظم عمران خان کے مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے کہا ہے امریکا  ہمیں یہ نہ کہے کہ جبر کر کے افغان مسئلہ حل کرائیں، پاکستانی سرحد پر جنگ واپس نہیں آ سکتی، یہ پاکستان کی ریڈ لائن ہے۔نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے معید یوسف نے کہا پاکستان کے بغیر افغان امن معاہدہ یہاں تک نہیں پہنچ سکتا تھا پہلے امریکا ہر وقت ڈومور کہتا تھا، امریکا نے اب افغان امن معاہدے کیلئے پاکستانی کوششوں کو تسلیم کر لیا، امن معاہدہ افغان فریقین کے درمیان اور امریکا دستخطی ہے۔ افغان جو فیصلہ کریں گے وہ ہمیں قبول ہو گا، دوحا میں بڑی محنت سے ایک فیصلہ ہوا، دوحا امن معاہدے میں پاکستان کا بہت اہم کردار ہے، روز بینچ مارک تبدیل ہوگا تو مسائل بڑھیں گے، کوئی بھی تبدیلی چاہتے ہیں تو افغان فریقین بیٹھ کر فیصلہ کر لیں۔انہوں نے کہا کہ جبر کے ذریعے کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ جب مذاکرات ہوتے ہیں تو ہر ایک کو لچک دکھانا پڑتی ہے، کامیابی تب ملے گی جب افغان فریقین خود اتفاق رائے سے فیصلہ کریں گے، پاکستان صرف سہولت کار ہے۔
 معید یوسف


واشنگٹن(مانیٹرنگ ڈیسک، ڈیسک) امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے دوطرفہ تعلقات کو صرف چین کے زاویے سے نہیں دیکھتے، ہماری ایک اور بھی ترجیح افغانستان میں امن اور استحکام ہے اور پاکستان کے بغیر افغانستان میں امن و استحکام قائم کرنا ممکن نہیں ہے۔ان خیالات کا اظہار امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان زیڈ تارڑ نے برطانوی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کیا۔ انٹرویو کے دوران انہوں نے پاک امریکا تعلقات، سی پیک سمیت دیگر اہم امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔زیڈ تارڑ امریکی محکمہ خارجہ کے لندن میڈیا ہب میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر فرائض انجام دے رہے ہیں جبکہ وہ جنوبی ایشیا کے حوالے سے محکمے کے میڈیا امور کو دیکھتے ہیں۔سی پیک سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں زیڈ تارڑ نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری پر ہمارا موقف واضح ہے، نہیں چاہتے کہ کوئی بھی شراکت دار قرضوں کے بوجھ تلے آئے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکا تعلقات ایک تاریخی معاملہ ہے اور دو طرفہ تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے ہمارے پاس بہت مواقع ہیں۔ سیکریٹری بلنکن نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے گفتگو میں کہا کہ امید کرتے ہیں کہ تعلقات کو مضبوط بنا سکیں خاص کر کے تجارت کے شعبے میں۔سابق صدر ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی تھی تو کیا نئی بائیڈن انتظامیہ بھی کچھ ایسا کرے گی اس سوال پر انہوں نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ ٹرمپ انتظامیہ سے کئی گناہ مختلف ہے۔ عالمی سطح پر مسائل بات چیت اور سفارتکاری سے حل ہوتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ براہ راست پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت سے کشمیر کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکی خارجہ پالیسی دیکھتے ہیں تو میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایسا کوئی مقابلہ ہے۔ میں خود اسی فائل کو سنبھال رہا ہوں اور دفتر خارجہ میں بطور سفارتکار مجھے 11 سال ہو گئے اور مجھے کبھی کوئی ایسا شک نہیں ہوا کہ پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات باقی دنیا کے مقابلے میں مختلف ہیں۔امریکا اور چین کیساتھ پاکستانی تعلقات پر سوال کے جواب میں ان کاکہنا تھا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ پاکستان اور امریکا کے دوطرفہ تعلقات صرف چین کے زاویے سے دیکھے جائیں گے۔ ہماری ایک اور بھی ترجیح افغانستان میں امن اور استحکام ہے اور پاکستان کے بغیر افغانستان میں امن و استحکام قائم کرنا ممکن نہیں ہے۔افغانستان میں طالبان کے ساتھ امن عمل کے حوالے سے ان سے پوچھا گیا کہ کیا نئی بائیڈن انتظامیہ طالبان کے ساتھ ہوئے دوحہ معاہدے پر نظر ثانی کر رہی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ اس وقت اس پورے عمل پر نظر ثانی چل رہی ہے اور خاص طور پر ہم دیکھ رہے ہیں کہ طالبان نے جو وعدہ کیا ہے وہ درست ہے اور کیا طالبان اپنے وعدوں کو یقینی بنانے کے لیے ہر قدم اٹھا رہے ہیں یا نہیں۔ یہ ریویو ابھی چل رہا ہے مگر یہ تفصیل ابھی موجود نہیں ہے کہ یہ کس طرف جا سکتا ہے۔افغانستان سے طالبان افواج کے انخلا پر ان کا کہنا تھا کہ اس وقت فورسز کے انخلا کے حوالے سے صدر بائیڈن نے کوئی فیصلہ نہیں لیا۔ ہم پہلے ریویو کریں گے اور پھر امریکی فوجیوں کے انخلا پر فیصلہ کریں گے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ نئے امریکی صدر جو بائیڈن کشمیر کو انسانی حقوق کا معاملہ سمجھتے ہیں اور اس کا فوری حل چاہتے ہیں، صدر جوبائیڈن باور کروا چکے ہیں کہ امریکا کے لئے انسانی حقوق ایک بنیادی مسئلہ ہے، امریکا سمجھتا ہے کہ کشمیر ایک انسانی  حقوق کا مسئلہ ہے اور امریکا چاہتا ہے کہ مسئلہ کشمیر فوری طور پر حل ہو، کشمیر میں موبائل سروس اور فور جی فوری طور پر بحال ہونی  چاہیے۔
امریکی محکمہ خارجہ

مزید :

صفحہ اول -