اس کی روح مصائب سہ سہ کر اتنی سخت ہوگئی تھی کہ اب اس میں کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں رہی تھی

مصنف : اپٹون سنکلئیر
ترجمہ :عمران الحق چوہان
قسط:157
یورگس نے آسٹرِنسکی اور اس کے گھر والوں کے ساتھ ناشتا کیا اور الزبیٹا سے ملنے چلا گیا۔اب وہ شرمندہ نہیں تھا۔ وہ اندر گیا تو سوچی ہوئی سب باتیں بھول کر الزبیٹا کو انقلاب کے متعلق بتانے لگا۔ پہلے تو وہ سمجھی کہ اس کا دماغ ہل گیا ہے، پھر بڑی دیر میں جاکر اسے یقین آیا کہ وہ ہوش ہی میں ہے۔ جب اس نے تسلی کر لی کہ سیاست کے علاوہ باقی سب باتیں یورگس سمجھ داری سے کر رہا ہے تو وہ مطمئن ہوگئی۔ یورگس کو یہ دیکھ کر بہت صدمہ ہوا کہ الزبیٹا پر سوشل ازم کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس کی روح مصائب سہ سہ کر اتنی سخت ہوگئی تھی کہ اب اس میں کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں رہی تھی۔ اس کی زندگی روز کی روٹی کا حصول تھا۔ اسے اپنے داماد کے تازہ جنون سے صرف اس حد تک دلچسپی تھی کہ کیا وہ اسے سنجیدہ اور محنت پسند بنا سکے گا؟ جب اس نے دیکھا کہ وہ دوبارہ کام تلاش کرنا اور گھر کے اخراجات میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتا ہے تو الزبیٹا نے اسے پوری چھوٹ دے دی کہ وہ جس موضوع پر چاہے اسے قائل کر لے۔ کتنی سمجھ دار خاتون تھی یہ الزبیٹا بھی ! اس کی سوچ شکار یوں میں گھِرے خرگوش کی طرح تیزتھی۔ آدھ گھنٹے کے اندر اندر وہ سوشلسٹ تحریک سے وابستہ ہو چکی تھی۔ وہ سوائے چندہ دینے کے یورگس کی ہر بات سے متفق تھی۔ وہ کبھی کبھار یورگس کے ساتھ جلسوں میں جانے کے لیے بھی رضامند تھی اور طوفان کے درمیان بیٹھ کر اگلے دن کے کھانے کا منصوبہ بنا سکتی تھی۔
یورگس ایک ہفتہ تک کام کی تلاش میں اِدھر اُدھر پھرتا رہا تب ایک دن اس کی قسمت نے یاوری کی۔ وہ شکاگو کے بے شمار چھوٹے ہوٹلوں میں سے ایک کے پاس سے گزر رہاتھا، کچھ جھجکتے ہوئے وہ اندر داخل ہوگیا۔ ایک آدمی، جسے یورگس مالک سمجھا، لابی میں کھڑا تھا۔ یورگس اس کے پاس گیا اور نوکری کے لیے بات کی۔
” کیا کر سکتے ہو تم ؟ “ اس آدمی نے پوچھا۔
” کچھ بھی جناب۔“ یورگس نے کہا اور پھر فوراً اضا فہ کیا ” میں بہت عرصے سے بے روزگار ہوں، جناب۔ میں ایمان دار آدمی ہوں۔ میں تگڑا ہوں اور کام کرنا چاہتا ہوں۔۔۔“
دوسرا آدمی اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔ ” شراب پیتے ہو ؟ “ اس نے پوچھا۔
” نہیں جناب۔“ یورگس نے جواب دیا۔
” ہوں، میں نے قلی (porter)کے طور پر ایک ملازم رکھا ہوا تھا لیکن وہ شراب پیتا تھا۔ میں نے 7 بار اسے نکالاہے اور اب فیصلہ کرلیاہے کہ اسے نہیں رکھوں گا۔تم قلی بنو گے ؟ “
” جی جناب۔“
” محنت کا کام ہے۔ تمھیں فرش صاف کرنے، اُگال دان دھونے اور لیمپوں میں تیل بھرنے اور ٹرنکوں کو دستے بھی لگانے پڑیں گے۔۔۔“
” میں تیار ہوں جناب۔“
” ٹھیک ہے تمھیں مہینے کے 30 دوں گا اور رہائش بھی اور تم چاہو تو ابھی کام شروع کر سکتے ہو۔ دوسری ملازم کی وردی پڑی ہے چاہو تو اسے پہن لو۔“
اور یوں یورگس کام پر لگ گیا اور رات گئے تک ٹرائے کے کسی باشندے کی طرح مشقت کرتا رہا۔ پھر گھر جا کر اس نے الزبیٹا کو بتایا اور، اگرچہ رات تو کافی ہو چکی تھی،وہ پھر بھی آسٹرِنسکی سے ملنے چلا گیا تاکہ اسے اپنی خوش قسمتی کی اطلاع دے سکے۔ یہاں اس کے لیے ایک اور حیرت منتظر تھی۔ جب اس نے ہوٹل کی جائے وقوع بتائی تو آسٹرِنسکی نے یک لخت کہا، ” یہ ہِنڈز کا تو نہیں ؟ “
”ہاں ہاں۔“ یورگس نے جواب دیا، ” یہی نام ہے۔“
اس پر آسٹرِنسکی نے کہا ،” تو پھر سمجھو تمھیں شکاگو کا بہترین باس مل گیا ہے۔ وہ ہماری جماعت کا سٹیٹ آرگنائزر ہے اور ہمارے بہترین مقرروں میں سے ایک !“
اگلے دم یورگس کام پر گیا تو مالک کو بتایا جس نے بات سن کر خوشی کے ساتھ یورگس سے ہاتھ ملایا۔” شکر خدایا !“ وہ چلّایا، ” تم نے مجھے بچا لیا۔ میں کل ساری رات اس فکر سے نہیں سویا کہ میں نے ایک اچھے سوشلسٹ کو نوکری سے نکال دیا تھا!“
اس کے بعد یورگس کا باس اسے ” کامریڈ یورگس!“ کہَہ کر بلانے لگا اور اس کی خواہش تھی کہ جواباً اسے بھی ” کامریڈ ہِنڈز۔“ پکارا جائے۔ ٹامی ہِنڈز چوڑے کندھوں، سرخ چہرے پر بھاری سرمئی مونچھوں والا ایک چھوٹے قد کا آدمی تھا۔وہ انتہائی نرم دل، خوش مزاج اور ان تھک آدمی تھا۔وہ دن رات سوشل ازم کے متعلق باتیں کرتا رہتا تھا۔ انتہائی ہنسوڑ اور مجلسی آدمی تھا۔ وہ جہاں ہوتا وہاں ہنگامہ برپا رہتا۔ جب وہ تقریر کرتا تو اس کی روانی اور جوش خطابت دیکھ کر نیا گرا آبشار کا خیال آتا تھا۔
ٹامی ہِنڈز نے زندگی کا آغاز ایک لوہار کے معاون کے طور پر کیا تھا اور وہاں سے یونئین آرمی میں شامل ہونے کے لیے بھاگ گیا تھا، جہاں وہ پہلی بار شکستہ سنگینوں اور لوگڑ کے بدبو دار کمبل کے توسط سے لفظ گرافٹ (graft / چوربازاری) سے آشنا ہوا تھا۔ ٹوٹی ہوئی سنگین سے اسے اپنے اکلوتے بھائی کی موت یاد آجاتی تھی اور بدبودار کمبل کو وہ اپنے بڑھاپے کی سب مصیبتوں کی وجہ سمجھتا تھا۔ جب بھی بارش ہوتی اس کا گٹھیا کا مرض شدید ہوجاتا، ایسے میں وہ بڑبڑاتا ” کیپٹل ازم۔۔۔ اس بدذات کو کچل دو!“ اس کے خیال میں دنیا کے ہر مسئلے اور ظلم کا ایک ہی علاج تھا، سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ، اور وہ ہر ایک کو اس کی تبلیغ کرتا رہتا تھا، چاہے اس آدمی کی پریشانی کی وجہ کاروبار ی خسارہ ہو یا بد ہضمی،یا چاہے جھگڑالو ساس ہی ہو۔ کسی کی پریشانی سنتے ہی اس کی آنکھوں میںچمک آجاتی اور وہ اس سے کہتا ” تمھیں پتا ہے اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے۔۔۔ سوشلسٹ کو ووٹ دو!“( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔