ماحول خوف، دہشت، ظلم، بدگمانی اور ایذارسانی سے بھرا ہوا تھا، ہر شخص دوسرے شخص کو جاسوس سمجھتا تھا

تحریر: ظفر سپل
قسط:114
1910ءہی کے پارلیمانی انتخاب میں رسل نے ایک آزاد خیال امیدار فلپ مورل کی حمایت میں انتخابی مہم چلائی۔ اسی دوران اسے فلپ کی بیوی اوٹولین مورل (Ottoline Morrell)سے میل جول کے مواقع ملے، جو جلد ہی رومانس میں بدل گئے۔ 1911ءمیں ایک رات اس نے لندن میں فلپ کے ہاں ٹھہرنے کا پروگرام بنایا۔ مگر جب وہ وہاں پہنچا تو اتفاق سے فلپ غیر حاضر تھا۔ یوں برسوں سے جذباتی ناآسودگی کے شکار رسل اور جواں سال اوٹولین کو شپ بھر کی رفاقت میسر آئی، اس واقعہ نے ان کے رومانس کی شدت میں مزید اضافہ کر دیا۔ جیسا کہ میں پیچھے لکھ آیا ہوں۔ رسل اور الیس کے تعلقات میں 1901ءہی میں سردمہری آ گئی تھی۔ مگر الیس اس کے باوجود اس تعلق کو ختم کرنے کے حق میں نہیں تھی، بلکہ اس نے علیٰحدگی کی صورت میں خودکشی کی دھمکی دے رکھی تھی۔ مگر اب جب اسے اس معاشقے کی خبر ملی تو سب کچھ ختم ہو گیا اور 1911ءمیں انہوں نے باقاعدہ علیٰحدگی اختیار کر لی، اور اوٹولین فلپ سے طلاق لے کر رسل کے ساتھ رہنے لگی۔
1914ءمیں رسل کو امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی سے خطبات کی دعوت ملی۔ امریکہ سے واپس آنے سے قبل اس کی ملاقات ایک نامور امریکی گائناکالوجسٹ کی بیٹی سے ہوئی۔ اس شاعرہ سے وہ ایک دفعہ پہلے اکسفورڈ میں مل چکا تھا۔ شعروادب سے غیر معمولی لگاؤ رکھنے والی اس معمولی شکل و صورت کی لڑکی کے ساتھ بھی رسل نے ایک شب بسر کی۔ تین چار سال کی مدت نے رسل کی اوٹولین سے محبت کو بھی سرد کر دیا تھا۔ اس لیے اس نے اس شاعرہ کو لندن آنے کی دعوت دی اور وہ لندن آ بھی گئی۔ مگر انہی دنوں پہلی جنگِ عظیم شروع ہو گئی۔ جنگ رسل کے اعصاب پر سوار تھی اور وہ عوامی طور پر جنگ کی مذمت میں مہم چلانا چاہتا تھا۔ مگر اب یہ ضروری تھا کہ کسی بھی قسم کے اسکینڈل سے محفوظ رہا جائے، اس لیے کہ عوام رہنماؤں کو انسان نہیں، فرشتہ سمجھتے ہیں۔ سو، رسل نے اس شاعرہ سے بے اعتنائی برتنا شروع کر دی۔ یہ سب کچھ اس حساس شاعرہ کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ وہ فالج کا شکار ہو کر معذور ہو گئی ۔اس طرح دکھ دینے والی جنگ، اس جنگ نے ایک رومانس کو غارت کرکے ایک المیے کو جنم دیا۔
جنگِ عظیم اول نے سب کچھ بدل کے رکھ دیا، رسل کو بھی۔ ول ڈیوونٹ نے درست لکھا ہے کہ ”رسل دو ہیں۔ ایک وہ جو دورانِ جنگ مر گیا اور دوسرا وہ جو مرے ہوئے رسل کے تابوت سے نمودار ہوا۔ اب یہ ” صوفی اشتراکی ہے، جو ریاضیاتی منطقی کی خاک سے اٹھا“۔ ہمارے مہذب انگریز فلسفی کا خیال تھا کہ ”مہذب“ انگریز جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، یا کم از کم غیر جانبدار رہیں گے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ رسل کا خواب بکھر گیا۔ اس نے صدمے کے عالم میں کہا ”کاش مجھے یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا“ اسے زیادہ صدمہ اس وقت ہوا، جب امن پسندی کی مہم میں دانشوروں نے اس سے تعاو¿ن کرنے سے انکار کر دیا اور وہ تنہا رہ گیا۔ اس کے نہایت قریبی دوست ایچ۔جی۔ویلز(H.G Wells) نے اسے اعلانیہ برا بھلا کہا۔ اسے سماج دشمن، غدار اور جرمنوں کا آلہ کار قرر دیکر میک ٹیگرٹ نے تمام دیرینہ مراسم کو ایک طرف رکھ کر کیمبرج یونیورسٹی سے اس کے اخراج کے لئے جلوس نکالا۔ 11 جولائی 1916ءکو اسے واقعتاً یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ 1918ءمیں ہفت روزہ ”ٹریبون“ میں ایک جنگ مخالف مضمون لکھنے پر اسے ساڑھے چار ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ اب وہ ایک دانشور کی بجائے قیدی نمبر2917تھا۔
تلاشِ امن کی مہم کے دوران رسل کی راہ و رسم ایک ہم خیال خاتون کولٹی اونیل سے ہوئی۔ جو جلد ہی جذباتی رشتے میں بدل گئی۔ رسل کے تعلقات اوٹولین سے ختم ہو چکے تھے۔ کولٹی نے یہ خلا پر کر دیا۔ مگر یہ رشتہ پائیدار نہیں تھا۔ جلد ہی کولٹی نے کسی اور کو اپنا ہم سفر بنا لیا۔ جنگ کے خاتمے پر 1916ءکے موسم ِ گرما میں رسل کی ملاقات ایک انگریزلکھاری، حقوقِ نسواں کی حامی اور سوشلٹ کارکن خاتون ڈورا بلیک (Dora Black)سے ہوئی، جو پائیدار تعلق میں بدل گئی۔
اگست 1920ءمیں رسل نے برٹش گورنمنٹ کے سرکاری وفد کا حصہ بن کر سویت یونین کا دورہ کیا، تاکہ انقلاب کے ثمرات کا قریب سے جائزہ لیا جا سکے۔ بات یہ بھی ہے کہ رسل نے دیگر انسان دوستوں کی مانند بالشویک انقلاب کا خیر مقدم کیا تھا اور ”جنت ارضی“ کو قریب سے دیکھنے کی آرزو اسے روس لے گئی۔ یہاں آکر اس نے ممتاز روسی رہنماؤں کے علاوہ لینن سے بھی ملاقاتیں کی۔ مگر یہاں آ کر اس کے سارے خواب بکھر گئے۔ اس نے لینن کو ایک ”شرارت بھری بے رحمی“ کا حامل شخص پایا۔ ماحول خوف، دہشت، ظلم، بدگمانی اور ایذارسانی سے بھرا ہوا تھا۔ ہر شخص دوسرے شخص کو جاسوس سمجھتا تھا۔ وہ لکھتا ہے ”ہماری گفتگو کی بھی جاسوسی کی جاتی تھی۔ آدھی رات کو جیل خانوں سے گولیوں کی آوازیں آتیں۔ ظاہر ہے مخالفین کو گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا تھا“۔ اس نے یہ بھی کہا ”روس ایک بندی خانہ میں تبدیل ہو چکا ہے، جس کے نگران ظالم اور تنگ نظر ہیں“۔(جاری ہے )
نوٹ :یہ کتاب ” بک ہوم “ نے شائع کی ہے ، جملہ حقوق محفوظ ہیں (ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں )۔