ابتدائی دنوں میں ہی ارباب اختیار سے کچھ سنگین سفارتی غلطیاں ہو چکی تھیں

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:10
حکومتی مشکلات
اس نو زائیدہ ملک کی حکومت بھی ان ہی مہاجروں کی طرح ابھی پوری طرح کھڑی بھی نہ ہو سکی تھی اورگھٹنوں کے بل ہی رینگ رہی تھی۔ مالی وسائل بہت ہی محدود تھے۔یہاں پناہ لیے ہوئے ہزاروں مہاجرین کی آبادکاری کا خیال کسی کے ذہن میں ہی نہیں آ رہا تھا اور اگر آتا بھی تو ا نتہائی نا مساعد حالات میں اس پر عمل کرنا فی الوقت اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا۔فی الوقت تو وہ شتر مرغ کی طرح ریت میں منھ دبائے بیٹھے تھے۔
بابائے قوم کوئی 3 برس ہوئے رخصت ہو چکے تھے ، اور ملک کی باگ ڈور اب بطور گورنرخواجہ ناظم الدین کے پاس تھی جن کے ساتھ لیاقت علی خان وزیر اعظم کی حیثیت سے کام کر رہے تھے ۔ وہ دشمنوں اور اپنوں کی سازشوں میں بری طرح گھرے ہوئے تھے اور ایسے حالات میں اس ملک کو قائم رکھنے اور اس کا نظم و نسق چلانے کی خاطر بہت جدو جہد کر رہے تھے ۔ دوسری طرف ہندوستان ابھی تک ذہنی طور پر اس تقسیم کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔اس کے لیڈر پورے بھروسے سے سمجھتے تھے کہ پاکستان مشکل ہی سے چند مہینے جی پائے گا اور اسے ایک بار پھر گھٹنوں کے بل واپس آکر اپنے مرکز یعنی ہندوستان سے ہی ملنا ہو گا ۔ جب ان کے یہ خواب چکنا چور ہوئے تو وہ سازشوں پراتر آئے۔ ان کی ہر ممکن کوشش تھی کہ نئی قائم شدہ یہ مسلمان ریاست کسی نہ کسی طرح ناکام ہو جائے اور دو قومی نظریہ کو غلط ثابت کیا جائے جس کو بنیاد بنا کر مسلمانوں نے ہندوستان کا بٹوارا کروایا تھا۔ اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کےلیے ہندوستان ہر وہ کام کر رہا تھا جس کی ایک دشمن سے توقع رکھی جاسکتی تھی ۔ وہ ہر مسئلے کوحل کرنے کے بجائے ایسی مشکلات کھڑی کر دیتا تھا جس سے حالات مزید پیچیدہ ہو جاتے تھے۔
ابتدائی دنوں میں ہی پاکستانی ارباب اختیار سے کچھ سنگین سفارتی غلطیاں ہو چکی تھیں۔ کچھ کم عقل اور نادان صلاح کاروں کی ناقص مشاورت کی وجہ سے ہم نے امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر ایک اور بڑی طاقت روس کو بھی اپنے دشمنوں کی صف میں لا کھڑا کیا تھا ۔ہوا کچھ یوں تھا کہ وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کو روس نے اپنے ملک کا سرکاری دورہ کرنے کی دعوت دی تھی جسے قبول کر لیا گیا تھا ۔ اس کے فوراً بعد امریکہ نے بھی ان کو اپنے ملک میں آنے کو کہا ۔ کچھ اپنی ناسمجھی اور کچھ غلط مشاورت کی بدولت عین وقت پر وزیر اعظم روس کی دعوت کو نظر انداز کرکے امریکہ چلے گئے ۔ یہ ہزیمت روس کے لیے بڑی گہری تھی۔ اس نے ایک طویل عرصے تک اس زخم کوبھلایا نہیں اور جہاں کہیں بھی موقع ملا، براہ راست یا ہندوستان کی وساطت سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے رہا اور بعد ازاں ایسا کیا بھی۔ وہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی موافقت میں پیش کی جانے والی کسی بھی قرارداد کو ویٹو کے ذریعے رد کروادیتا تھااور دباﺅ بڑھانے کے لیے ہندوستان کو اسلحہ دیتا رہا۔
ابھی ہمیں کراچی آئے چند ہی مہینے گزرے تھے کہ ایک روز میں نے دیکھا کہ میرے ابا جان بہت ہی افسردہ حالت میں گھر سے نکلے ۔ ان کی فوجی وردی کے کاندھے پر سیاہ رنگ کی ایک چوڑی سی پٹی بندھی ہوئی تھی۔ وہ چھلانگ مار کر باہر کھڑے فوجی ٹرک پر چڑھ گئے جس میں اور بھی بہت سارے جوان اسی طرح کالی پٹیاں باندھے بیٹھے تھے ۔ جاتے جاتے وہ ہمیں بتا گئے کہ ملک کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے ایک جلسے میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا ہے اور وہ ان کے جنازے میں شرکت کے لیے جا رہے ہیں ، انہیں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ قائد اعظم کے پہلو میں دفن کیا جانا تھا ۔ میں ابھی چھوٹا تھا ، سیاست کے بارے میں ذرا بھی علم نہیں تھا اورنہ ہی اس عمر میں کبھی اس کی ضرورت محسوس کی تھی ، بس ذہن میں یہ خیال آیا کہ شاید کوئی بڑا بندہ انتقال کر گیا ہو گا ۔ کچی عمر میں بس ذہن اتنا ہی قبول کرنے کے قابل ہوا تھا ۔ ان کے جانے کے بعد میں اپنی معمول کی کارروائیوں میں مشغول ہو گیا ۔جبکہ اس دن کراچی بہت سوگوار تھا۔
ابھی پاکستان کے عوام اپنے عظیم قائد کے بچھڑنے کا غم بھی صحیح طرح بھلا نہ پائے تھے کہ یہ سانحہ ہو گیا ۔ پاکستانی قوم تو اندر سے بالکل ٹوٹ ہی گئی تھی۔ بہرحال، سنبھلنے کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا ۔ اس لیے حالات سے سمجھوتا کرنا ہی تھا۔( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )