ماں کے نام جس کی محبت کا ثمر یہ الفاظ ہیں

ماں کے نام جس کی محبت کا ثمر یہ الفاظ ہیں
ماں کے نام جس کی محبت کا ثمر یہ الفاظ ہیں

  

باﺅکی بیٹھک 

آج بھی روزمرہ کی طرح شام کے وقت میں چائے خانے پہنچا۔ دور سے چاچا جی اپنی مخصوص چال چلتے ہوئے اور کسی سوچ میں غرق آتے دکھائی دیئے۔ میں نے گرمجوشی کے ساتھ ان کا استقبال کیا اور حال احوال پوچھ کے چائے کا آرڈر دیا۔ چاچا اپنے مخصوص انداز میں بولے.... باﺅجی حالات دن بدن ابتر ہوتے جا رہے ہیں، ہم معاشی ہی نہیں بلکہ معاشرتی طور پر بھی نادارومفلس ہوتے جا رہے ہیں۔ میں نے ایک گہری سانس لی اور چاچا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ شا ید ایسے بدقسمت زمانے سے گزرنا ہمارے نصیب میں لکھا تھا! چاچا نے بات کو جوڑتے ہوئے بتانا شروع کیا کہ کس طرح منشیات اور بے حیائی آج کل ہمارے معاشرے میں اپنے زہریلے دانت گاڑ تی چلی جارہی ہے اور اسلام کے نام پر بنے اس ملک کے نوجوانوں کو مکمل طور پر تباہ کرنے پر پر تلی  ہے۔ 

 اسی اثناءمیں چائے بھی آ گئی۔ سردی کے موسم میں گرم چائے نہ صرف بہترین مشروب بلکہ دوا کے طور پر بھی بے حد مؤثر لگتی ہے، اسی سوچ میں ہم نے چائے پینا شروع کی۔ اس دوران چاچا جی نے ایک اور سوال داغ دیا کہ باﺅجی یہ پاکستان کے حالات کب تک ایسے رہیں گے؟ عوام کوکب تک مہنگائی کی چکی میں پسنااوراشرافیہ کے ستم سہنا ہے؟ اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا دور سے پپو ا پنی موٹر بائیک پر آتا دکھائی دیا۔ میں نے بتایا کہ آج کی محفل کے شرکا ءپورے ہوا چاہتے ہیں اور ویٹر کوپپو کیلئے ایک کپ چائے لانے کا آرڈر دیا جس کے بعد میں چاچا کے سوال کی طرف متوجہ ہوا۔ میں نے چاچا جی کو اوپن ا ینڈڈ سوال کے بارے میں سوچا، اسی اثناءمیں پپو سلام کر کے کرسی پر ڈھیر ہو گیا۔ میں چاچا جی سے مخاطب ہوا اور بولا کہ چاچا جی یہ اس قوم کی مجموعی غلطیوں کا نتیجہ ہے جو اب غلطان میں تبدیل ہو چکا ہے، ہمارے ملک میں ہر قسم کا قانون موجود ہے جس پر کسی طرح عمل درآمد نہیں ہوتا۔ ہم ماضی میں نہ ہی جائیں آج کی تاریخ میں ہر سال ہماری آبادی میں40 لاکھ لوگوں کا اضافہ ہو رہا ہے، ہماری آبادی تقریباً 23 کروڑ ہے جس میں سے 35فیصد خط غربت سے نیچے ہیں، 35فیصد لوگ غربت پر ہیں، 20 فیصدلوگ لوئر مڈل یا مڈل کلاس میں ہیں اور باقی 5 فیصد وہ لوگ ہیں جو ہم پر حکمرانی  کرتے ہیں، ہمارے لئے فیصلے کرتے ہیں اور  ملک میں آنے والی ہر آفت ہر مسئلے میں فائدہ اٹھاتے اور پیسہ بھی کماتے ہیں۔

ابھی میں اس سوال کا جواب کوزے میں بند کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ پپو بولا باﺅجی! اس میں ہم غریبوں کا کیا قصور ہے، ہم اس ملک سے محبت کرنے والے لوگ ہیں لیکن ہمیں تو کچھ بھی نہیں ملا، اوپر سے مہنگائی نے ہماری کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ پپو کا سوال سطحی تھا مگر فکر طلب تھا۔ میں نے  گہری سانس لی اور بات کو دوبارہ شروع کیا اور بولا پپو میرے بھائی! میں بھی یہی بتانا چاہ رہا تھا کہ ہم لوگ اپنے ملک کو زرعی ملک کہتے ہیں لیکن ہم اس بات پر غلط ہیں، ہمارے ملک کا 22 فیصد Gross domestic product زمین پر منحصر ہے جس میں سے 14 فیصد کیٹل فارمنگ فشریز وغیرہ میں اور 8 فیصد زرعی اجناس کی پیداوار پر ہے، ہم زراعت میں اس مقام پر آ چکے ہیں کہ ہم پام آئل، دالوں اور کچھ اجناس کو درآمد کرنے کے بعد بھی اپنی خوراک کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتے، ہم لوگ آج کی تاریخ تک زر عی ادویات کی ایک بھی (Pestisides)فیکٹری نہیں لگا سکے۔ جس ملک کو بہترین نہری نظام کا حامل سمجھتے ہیں اس ملک میں 90 فیصد پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ ہمارے ملک کا زیادہ تر انحصار درآمدات پر رہ گیا ہے جس میں زیادہ تر حصہ تیل (Crud oil) گیس پر ہے۔

ابھی بات کر کے میں نے چائے کی چسکی لی تھی کہ چاچاجی بولے باﺅجی! یہ کام تو پچھلی کئی دہائیوں سے چلتا آ رہا ہے مگر اب تو سانس بھی لینا دشوار ہو چکا ہے، ایک مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے دوسرا ملاوٹ زدہ اشیاءکی انتہا اور اوپر سے آئے دن اشیاءکا مارکیٹوں، بازاروں میں ناپید ہو جانا۔ جس پر پپوبولا۔ باﺅجی! اس میں ہمارا کیا حصہ ہے ہم تو ووٹ بھی دیتے ہیں، ملک میں جمہوریت کیلئے نعرے بھی لگاتے ہیں، آج ہی میں رکن صوبائی اسمبلی کے پاس محلے کے ایک کام کیلئے گیاتھا لیکن انہوں نے اپنی روش کے مطابق پھر سے بھگا دیا ۔جس پر چاچا جی بولے کہ ہم لوگ معاشرتی طور پر ایک قوم نہیں بلکہ گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں جن کو ہم نے اپنے حقوق کی پامالی سے لے کر ہر طرح کی استحصال کی اجازت د ی ہوئی ہے اور ان ہی کو ووٹ دے کر مزید طاقتوربناتے ہیں، ان ذات برادریوں کے علمبرداروں نے ہمیں اس مقام پر کھڑا کر دیا کہ آج ملک ڈیفالٹ ہونے کی نہج پر ہے بلکہ اس وقت تو حال یہ ہے کہ کسی بھی وقت ڈیفالٹ ہوا چاہتا ہے۔جس پر پپو بڑی معصومیت سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولا باﺅجی! ایک تو یہ ڈیفالٹ کیا ہے اور دوسرا ہمارے برادر اسلامی ملک ہمارا خیال کیوں نہیں کر رہے اس مشکل وقت میں؟

میں نے گہری سانس لے کر چاچاجی کی طرف اجازت طلب نگاہوں سے دیکھا ، اجازت ملی اور میں بولا پپو! ایک تو میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ڈیفالٹ کیا ہے، سب سے پہلے انفرادی ڈیفالٹ دیکھو مثال کے طور پر اگر آپ کی تنخواہ 25 ہزار ہے جو پاکستان میں ایکچوئل تنخواہ بھی ہے اور آپ اس تنخواہ میں روزانہ 2 لیٹر پٹرول اپنی موٹر بائیک میں ڈلواتے ہیں تو وہ آج کے ریٹ کے مطابق تقریباً 6360/- روپے ماہوار بنتا ہے، اس کے علاوہ آپ کے کچن کے اخراجات، بچوں کی فیس، گھریلو بلز کیلئے آپ کو ہر ماہ چند ہزار ادھار لینا پڑیں گے، اگر آپ یہ کام ایک سال کرتے رہیں تو آپ سال بعد کچھ لاکھ کے مقروض ہو جائیں گے اور آمدن کے بڑھنے کی صورتحال چونکہ ہو گی ہی نہیں تو آخرکار آپ قرض کی دلدل میں پھنستے ہوئے جیل کی سلاخوں تک پہنچ جائیں گے جو آپ کے گھر آنے والی 25 ہزار کی آمدن کو بھی ختم کر دے گی اور آپ معاشرتی طور پر صفر پر پہنچ جائیں گے جس سے آپ اور آپ کے گھر کی معاشرتی زندگی ختم ہونے کی نہج پر آ جائے گی ان کو ڈیفالٹ کی سیچویشن (Situation) کہتے ہیں مگر یہ ایک انفرادی ڈیفالٹ ہو گا جبکہ ملک کا نظام کچھ مختلف ہے۔ پاکستان کے فارن ریزرو کی مد میں اس وقت کچھ بھی نہیں ہے، ایک تو جو بچی کچھی فارن ریزرو رہتی ہے وہ اتنی ہے کہ اس سے ہم درآمدات نہیں کر پا رہے، دوسرا یہ بھی ڈیٹ بیسڈ ہے یعنی ہم غالب کے شعر کو پورا کرتے ہیں.... 

قرض کی پیتے تھے مہ اور کہتے تھے ہاں

رنگ لائے گی ہمارا فاقہ مستی ایک دن 

 اصل میں ہم نے مجرمانہ روش اختیار کر رکھی ہے ہمارے بیرونی اور اندرونی قرضوں میں اضافہ اور اس پر سود نے ہمارے معاشی نظام کو جکڑ رکھا ہے اوپر سے ہمارے غلط فیصلوں نے ہمارے درآمدات کے نظام کو مکمل طور پر درہم برہم کر کے رکھ دیا ہے۔ ہماری نقد آور فصلوں (Cash crops) کی ایکسپورٹس تاریخ کی نچلی ترین سطح پر ہیں۔ لوکل انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہے، نہ ہم نے انٹرنیشنل کارپوریشنز یا انڈسٹریز کیلئے راہوں کو ہموار کیا نہ ہم نے اپنے نوجوانوں پر کام کیا، نہ ہم نے ان کو سکل (Skill) دینے کیلئے ٹریننگ دی نہ انہیں دنیا کے ساتھ چلنے کیلئے ایگزیکٹ (Exact) معیار تعلیم دیا اور نہ اچھے روزگار کا انتظام (اندرون و بیرو ملک) کیا جا سکا، نہ ہم نے مائننگ انڈسٹری پر کام کیا کہ ہم منرل بیسڈ (Mineral Based) اکانومی پر چلے جاتے بلکہ جہاں تک کوشش کی جا سکتی تھی ہم نے اس سے زیادہ برآمدات کو بڑھایا کہ آج صورتحال یہ ہے کہ ہم کھانے کا تیل اور دال تک برآمد کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ان ضروری اشیاءکی پیداوار کی صلاحیت ہمارے پاس نہیں۔ 

جہاں تک پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا معاملہ ہے چند چیدہ چیدہ باتیں گزارش کرتا ہوں۔پاکستان کے پاس مفتاح اسماعیل کی وزارت خزانہ کے دوران 1.1 ارب ڈالر کے قرض کا فائنل فریم ورک تیار تھا، اسلامی بانڈز کی پیمنٹس ادا ہو چکی تھیں، یورو بانڈز کی ادائیگی 2021ءمیں تھیں، قرضوں کو ری شیڈول ہونا تھا مگر اسحاق ڈار کو بلا لیا گیا اور ان کے نومبر 2022ءمیں شاہ زیب خانزادہ کے پروگرام میں سٹیٹمنٹ نے آئی ایم ایف کے نومبر کے دورے کو کینسل کروا دیا چونکہ سکول آف تھاٹ اور ورکنگ سٹائل توتبدیل ہوا ہی تھا لیکن ان کی سٹیٹمنٹ نے زہر قاتل کا کام کیا اور روپے کی قدر اور فارن ریزرو میں خطرناک حد تک کمی آئی۔  مگر پاکستان ابھی بھی ڈیفالٹ نہیں ہو سکتا، اس کی وجہ آئی ایم ایف کا برازیل کے ڈیفالٹ کر جانے کے بعد کا سکول آف تھاٹ نہیں کہ کسی ممبر ملک کو ڈیفالٹ نہ ہونے دیا جائے اور نہ ہی اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈیفالٹ کی صورت میں نہ صرف پاکستان کے بیرونی اثاثہ جات ’آن ہولڈ‘ (on hold) پر چلے جائیں گے جن میں فلیگ شپ، ایئرلائن کے جہاز بھی شامل ہوں گے بلکہ ہمارے 5% اشرافیہ کا وہ تمام پیسہ بھی ’آن ہولڈ‘ چلا جائے گا جو فارن بینکس میں موجود ہے۔ یہ پاکستان کے ڈیفالٹ نہ کرنے کی وجوہات نہیں بلکہ دو بیانات ہیں جو ہمارے لئے سیلف ایکسپلینیٹری (Self explainatory) ہیں۔ 

پہلا بیان چائنیز فارن منسٹر کا ہے جس میں انہوں نے یہ بتایا کہ ”ہم نے پاکستان کا کافی بار خیال رکھا ہے اس بار ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی باری ہے“۔ دوسرا بیان امریکی فارن سیکرٹری کی طرف سے ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ ”انہیں انڈیا اپنے ا نٹرنیشنل معاملات کیلئے درکار ہے پاکستان اپنے ریجنل معاملات کے لئے“ جس سے آپ کو ان کے عزائم واضح طور پر سمجھ آتے ہوں گے۔ 

ہاں اس بات کو ہم بالکل بھی نظرانداز نہیں کر سکتے کہ پاکستان کے ڈیفالٹ نہ ہونے کی صورت میں بھی بہت سے سیلف یا سنگل اینٹٹی (self/ singl entity) ڈیفالٹ ہوں جس طرح میں آپ کو پہلے ہی بتا اور سمجھا چکا ہوں پپوجی! جس کی تائید پپوجی نے الفاظ کی بجائے خلاف توقع اپنی آنکھوں سے کی۔ اس مؤدب رویہ سے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے میں اسے کوئی قدیم سمجھتا رہا ہوں اور وہ خود کوہ ہمالیہ کی بلندیوں میں محسوس کر رہا ہے۔ 

بات کا سلسلہ چاچا جی نے جوڑا باﺅجی اس کو یہ بھی بتائیں کہ ا یک بے حد تکلیف دہ مہنگائی اور قلت کا طوفان آ رہا ہے جس کے لئے ہم بالکل بھی تیار نہیں اور یہ طوفان نہ صرف ہمارے لئے بلکہ پوری دنیا کے لئے بہت بڑا امتحان ہو گا اور ہم اس کے لئے بالکل بھی تیار نہیں ہیں نہ حکومتی سطح پر نہ انفرادی طور پر۔ بڑی دور کی کوڑی لائے ہو، چاچا جی پپوستائشی نظروں کے ساتھ بولا۔ چلو ہن ہور چا دا آرڈر دے دیو کیونکہ دوسرے سوال کا جواب ابھی مطلوب ہے۔ اس بار چاچا جی نے چائے خانے کے سٹاف کو چائے کا آرڈر کیا اور مجھے مخاطب کر کے بولے باﺅجی! امریکا کا یہ بیان ہمارے لئے بے عزتی اور ہزیمت کا باعث ہے لیکن یہ سب ہمارے ساتھ 47سے لے کر اب تک ہوتا آیا ہے، جو تب سے اب تک قابل قبول نہیں، ہم ’ڈومور‘ کرتے بہت آگے نکل آئے ہیں جس میں اپنی قومی حمیت کو مکمل طور پر ختم کرنے پر تلے ہیں۔ اس اثناءمیں اک بار پھر چائے آ گئی۔ میں نے چاچا جی کی تائید میں اپناسر ہلایا اور چائے کا کپ اٹھا لیا۔ چائے کا گھونٹ لیتے ہی پپو بولا اب میرے دوسرے سوال کا بھی جواب دے دیں ہمارے برادراسلامی ملک کہاں ہیں، ہمارے تو آسمان کی اونچائیوں تک تعلقات ہیں ان کے ساتھ وہ ایسا کس طرح ہونے دے سکتے ہیں ہمارے ساتھ؟ میں نے اک پھیکی مسکراہٹ سے پپو کی طرف دیکھا، وہ صدیوں کی معصومیت اپنے چہرے پر لئے ایک اچھا سوال کر بیٹھا تھا۔ 

میں نے بولنا شروع کیا پپو جی جب ہمیں خود کا خیال نہیں تو کوئی کیوں رکھے گا؟ دنیا ایک میجر پاور شفٹنگ کی طرف جانے کی تیاری میں ہے جس کی وجہ سے کافی سٹرکچرل تبدیلیاں درپیش ہیں جس کو ٹیکل کرنے کی تیاری کیلئے ہم نے سوچا بھی نہیں، ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ ہم نے کس طرف بیٹھنا ہے جس کی وجہ سے ہم بہت سی فیورٹ لسٹ سے نکلتے جا رہے ہیں لیکن اس چیز کے احساس سے بھی عاری ہماری اشرافیہ کو اگر کسی چیز میں دلچسپی ہے تو وہ منی لانڈرنگ ہے جیسے آج کل انہوں نے افغانستان سے یورپ ڈالر بھیجنے کا طریقہ اپنایا ہوا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ”ضرورت ایجاد کی ماں ہے“ تو ان کو صرف ضرورت ہی اس چیز کی ہے۔ 

دوسری طرف سعودی عرب اپنے ملک میں 3000 امریکی فوجیوں کے ہوتے ہوئے جو سعودیوں کی حفاظت پر اسکون ویلج میں مامور ہیں اور بحری بیڑا پانی میں کھڑا حفاظت پر مامور ہے کہ اپنی اکانومی کو تیل اور گیس سے شفٹ کرتے ہوئے ٹورازم، مینوفیکچرنگ انڈسٹری اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر لے کر جا رہے ہیں جس کے لئے 223 ارب ڈالرز کی چین اور مڈل ایسٹ کی ڈیل ہے۔ علاوہ ازیں 27 سالوں پر محیط چین اور قطر کی ایل این جی ڈیل جو 60 ارب امریکی ڈالرز کی ویلیو رکھتی ہے سعودیہ کی چین کو ون بیلٹ ون روڈ میں شمولیت کے لئے 5 ارب ڈالرز کی پیمنٹ ہے دوسری طرف چین کی کمپنی سینٹ ٹائم (sense time) کی طرف سے 207 ملین امریکی ڈالرز کی انویسٹمنٹ سے سعودی عرب میں پہلی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی سٹیٹ آف دی آرٹ لیب بنائی جا چکی ہے۔ دوسری طرف چین ایران کے ساتھ 400 ارب ڈالرز کی ڈیفنس اور انرجی سے وابستہ ڈیل پر دستخط کر چکا ہے، روس بھی اس تمام پاور شفٹنگ میں کلیدی کردار ادا کرتا جا رہا ہے، ترکی اپنے افراط زر کے بڑھنے اور آنے والے الیکشن کی وجہ سے خود مشکلات سے دوچار ہے۔ 

مڈل ایسٹ بھی پاور شفٹنگ میں مصروف ہے۔ ان تمام معاملات میں ہماری کوئی خاص بیس بنتی نظر بھی نہیں آتی اور آئے بھی کیسے ہم لوگ کسی بھی ملکی فیصلے میں سنجیدہ نہیں ہیں ۔ آپ ون بیلٹ ون روڈ کے پراجیکٹ کو شیلف کرتے ہیں اسی لئے تو آپ کو روس سے تیل خریدنے کی اجازت درکار ہے اس لئے یہ برادر ملکوں کا راگ نہ الاپیں کیونکہ مدد ان کی ہوتی ہے جو اپنی مدد چاہتے بھی ہوں۔ 

میری بات ختم ہوتے ہی پپونے  گہری سانس لی اورمخاطب ہوا ”ساڈاکیہہ بنے گا ؟“ اس کو نظرانداز کرتے ہوئے چاچا جی بولے کوئی تو راستہ ہو گا آخر، چین کے یہ چمتکار بھی پچھلے 40 برسوں میں ہوئے ہیں۔ 

میں نے کہا کیوں نہیں۔ اگر آج اپنا قبلہ درست کر لیں تو کل اک نئی صبح ہے آپ یہ چند کام کر لیں آپ کے معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔

1۔ اپنی زمین پر فوکس کریں، پانی کے مسائل کو کور کریں، زرعی ادویات کی انڈسٹری لگائیں، کسانوں کو سہولیات کی فراہمی کے بارے میں سوچیں، ریسرچ اینڈ انیلسز (R&D) کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے نئے دنیاوی خطوط پر فارمنگ کریں۔ 

2۔ اپنے نوجوانوں کو نئی دنیاوی ڈیمانڈز کے تحت ہنر سکھائیں اور اس کو قومی ترجیحات میں شامل کریں۔ 

3۔ انرجی شعبے میں سستی اور صاف انرجی پر کام کریں اور عام آدمی کو مختلف قسم کے ڈسکاﺅنٹ و ریبیٹس (Rebates) دیں جس سے لوگ اور حکومت فائدہ اٹھا سکیں۔ 

4۔ آپ نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ انٹرپرینیورشپ کی طرف لے کر آئیں تاکہ سمال میڈیا انٹرپرائز کی طرف ہمارے یوتھ کا فوکس ہو، وہ لوگ برانڈنگ کی طرف آئیں، بزنس ڈائریفکیشن کی طرف آئیں اور اپنے برانڈز کو ڈویلپ کر کے انٹرنیشنل مارکیٹ میں کمپیٹ کریں۔ 

5۔ گورنمنٹ کو سکیورٹی سٹیٹ کے ساتھ ساتھ ویلفیئر سٹیٹ بننے کے لئے اپنے ٹیکس ڈیپا رٹمنٹ کی پالیسیز اور ورکنگ کو اوورویو (Over view) کرنا چاہئے کہ کیسے ہم ٹیکس اکٹھا کر کے معاشرے اور قوم کی فلاح کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔ 

اگر ہم یہ کچھ کام کر لیں تو ہماری قومی اور معاشی معاملات بہت حد تک بہتر ہو سکتے ہیں۔ 

میری اس بات پر چاچاجی نے اثبات میں سر ہلایا۔ پھر پپو بول پڑا.... باﺅجی! بس ہماری تو یہی دعا ہے کہ اللہ پاک ان حکمرانوں کو عقل دے، زیادہ دور نہیں تو چھ مہینے کے لئے ملک سے محبت کریں اور معاملات ٹھیک کر دیں پھر چاہے اگلے دس سال دونمبری کرتے رہیں۔ پپو کی اس معصومانہ دعا پر ہم کھلکھلا اٹھے۔ چائے خانے کا سٹاف برتن اٹھانے آ چکا تھا، ہم بل دے کر اٹھے، ایک دوسرے سے اجازت لی اور تینوں اپنے تین مختلف راستوں پر گھر کی طرف خراماں خراماں نکل پڑے جبکہ چوتھے راستہ پر ایک سرکاری گاڑی روز کی طرح اپنی مخصوص سپیڈ میں جا رہی تھی۔

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

مزید :

بلاگ -