اِس کارواں کا آج بھی رہبر نہیں کوئی

تُجھ سا جہاں میں حسن کا پیکر نہیں کوئی
تیری تو خاکِ پا کے برابر نہیں کوئی
تم پوچھتے ہو گھر کا پتہ، کیا بتاؤں میں
شہرِ بتاں میں مجھ سا تو بے گھر نہیں کوئی
تیرِ ستم چلانے سے تودست کش نہ ہو
مُجھ سا تو ظلم و جور کا خوگر نہیں کوئی
یہ گلشن حیات ہے ، اک باغِ خار و خس
فصلِ بہار میں بھی گل تر نہیں کوئی
راہِ خدا میں جو ہو قلم ذوق و شوق سے
بعد از حسینؓ دہر میں وہ سر نہیں کوئی
پہلو میں دل تڑپتا ہے، کس پر کروں نثار؟
شایانِ دل نگاہ میں دلبر نہیں کوئی
یہ قومِ بد نصیب ہے مقصود جعفری
اِس کارواں کا آج بھی رہبر نہیں کوئی
کلام :ڈاکٹر مقصود جعفری (اسلام آباد)