ہر بچہ ذہین ہے

ہر بچہ ذہین ہے اگر ہم اسے امتحان میں حاصل کردہ نمبر کو معیار بنا کر پرکھنے کی کوشش نہ کریں. ہر بچہ امتحان میں ٹاپ کرنے کے لیے پیدا نہیں ہوا اور نہ ہی کم نمبر حاصل کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کا فلاں بچہ نالائق ہے۔
ہر بچہ ذہین ہے بس اس کی ذہانت کا میدان دوسرے بچوں سے مختلف ہو سکتا ہے۔ اگر ایک بچہ تعلیمی میدان میں خاص نہیں ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ نکما ہے کام چور ہے سست ہے وغیرہ وغیرہ۔۔
عین ممکن ہے کہ آپ ایک سمندر میں تیرنے والی مچھلی کو صحرا میں بھگانے کی کوشش کر رہے ہوں؟ آپ اڑنے والے ہوائی جہاز کو سڑک پر بھگانے کی کوشش میں مصروف ہوں؟ آپ اکھاڑے میں لڑنے والے پہلوان کو دفتری کاموں میں دھکیل رہے ہوں؟ آپ چھکے لگانے، آؤٹ کرنے یا گول کرنے والے کھلاڑی کو لائبریری میں ٹک کر بیٹھنے کا درس دے رہے ہوں؟ آپ آلات سے کھیلنے والے ٹیکنیکل بندے کو کتاب پڑھنے پر مجبور کر رہے ہوں؟
اگر آپ کا بچہ غیر نصابی سرگرمیوں میں زیادہ "پرفیکٹ" ہے تو جان لیجیے کہ اس کی قابلیت اور ذہانت کا میدان یہی ہے۔ ایک اچھا کھلاڑی صرف جسمانی طور پر مضبوط نہیں ہوتا بلکہ وہ خاصا ذہین بھی ہوتا ہے ورنہ صرف بھرپور طاقت سے بلا گھمانے پر چھکے نہیں لگائے جاتے نہ ہی فٹ بال کو پہلوان کے پیروں میں دے کر گول کروانا ممکن ہے۔ایک صحت مند شخص اگر ذہنی طور پر مفلوج ہو تو وہ کبھی بھی پہلوان نہیں بن سکتا ۔ یہاں جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے۔
تو احباب گرامی آپ کا ہر بچہ ذہین ہے صرف اس کی ذہانت والے میدان کو سمجھنے کی ضرورت ہے اپنے ہر بچے کو امتحان میں ٹاپ کرنے کی نظر سے پرکھنے کی کوشش مت کریں ورنہ آپ اس بچے کو کسی قابل نہیں چھوڑیں گے۔ وہ تعلیمی میدان میں ہلکا ہے تو رہنے دیں جیسے کیسے وہ پڑھ رہا ہے چلنے دیں بس وہ بنیادی تعلیم حاصل کرے جہاں تک کامیابی کی بات ہے تو زندگی کے کسی میدان میں وہ ایک دن ضرور کامیاب ہو جائے گا اگر آپ اسے سوچنے سمجھنے کے قابل رہنے دیں گے۔ جن غیر نصابی سرگرمیوں میں وہ حصہ لینا چاہتا ہے دلچسپی رکھتا ہے اسے کرنے دیں یہی اس کی کامیاب زندگی کا آغاز ہوگا۔۔
یاد رکھیے کہ کم نمبروں کے ساتھ کامیابی ممکن ہے مگر ڈپریشن اور فرسٹریشن کے ساتھ ناممکن ہے ۔۔