بٹوارا ہوا تو ہندوستان نے مکاری کی انتہا کردی،وہاں سے آنے والی مال گاڑیاں جب پاکستان میں کھولی جاتیں تو ان میں پتھر اور کوڑا کرکٹ بھرا ہوتا تھا

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:11
جب میں ذرا بڑا ہوا اور کچھ سمجھ داری کی باتیں کرنا شروع کیں تو میرے ا با جان نے تقسیم ہند کے فوری بعد اور ہمارے کراچی آنے سے پہلے کے کچھ حالات آسان لفظوں میں اس طرح بتائے کہ بات کچھ کچھ سمجھ آنا شروع ہوگئی۔انہوں نے ابتدائی دور کی کچھ صعوبتوں اور پریشانیوں کا ذکر بھی کیا جو ایک نو زائیدہ مملکت کو جھیلنا پڑی تھیں ،جن میں سب سے بڑا مسئلہ سرکاری دفاتر قائم کرنے کے لیے عمارتوں کا نہ ہونا بھی تھا۔ اس مسئلے سے نبٹنے کے لیے عمارتوں کے باہر کھلے میدانوں میں خیمے لگا کر عارضی دفاترقائم کیے گئے ۔ روزمرہ کے دفتری کاموں کے لیے اسٹیشنری بھی نہیں تھی۔اکثر دفتروں میں استعمال شدہ کاغذوں کے پچھلی طرف لکھ کرکارروائی پوری کی گئی ۔ کاپینگ پینسل اس وقت عام استعمال میں تھی، جسے عام تحریروں کے لیے کام میں لایا جاتا تھا ۔اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے اور اکثر اس بات کا ذکر بھی ہوا کہ کاغذوں کوآپس میں نتھی کرنے کے لیے ڈوری اور ببول کے لمبے کانٹے چپڑاسی قریبی جنگلوں سے توڑ کر لاتے تھے ۔ سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے پیسے نہیں تھے ، اس کے لیے بھی ایک بینک اور نواب آف بہاول پور کے علاوہ دیگر مخیر حضرات نے دل کھول کر حکومت کی مدد کی تاکہ ملازموں کے گھر کا چولہا جلتا رہے ۔
انتہا یہ تھی کہ پاکستان کی اپنی کرنسی اور ڈاک کے ٹکٹ تک نہ تھے۔ بڑے عرصے تک ہندوستان کے لیے طباعت شدہ کرنسی نوٹوں اور ڈاک ٹکٹوں کے اوپر”پاکستان “ کا لفظ چھاپنا پڑا ۔اسی طرح جائیداد کے لیے اسٹیمپ پیپر بھی ہندوستان ہی کے طبع شدہ تھے۔
ملک کے دفاع کے حوالے سے بھی حالات بہت ہی خراب تھے ۔سپاہیوں کو مکمل یونیفارم بھی مہیا نہیں کیے جا سکتے تھے ۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ فوجی بوٹوں کی جگہ سپاہی عام سی چپل پہن لیتے تھے۔با ضابطہ اور مکمل یونیفارم بہت کم ملازمین کے پاس تھا۔
کچھ ایسا ہی حال فوجی سازو سامان کا بھی تھا ۔ دوسری جنگ عظیم کی متروک شدہ بندوقیں اور مشین گنیں پاکستان کو دی گئیں ۔جب بٹوارا ہوا تو پاکستان کے حصے میں آنے والے ٹینک ، توپیں، بکتر بند اور دوسری گاڑیاں اور ٹرک سڑک کے ذریعے پاکستان روانہ کیے جاتے رہے، جب کہ ریل گاڑیاں چھوٹا اسلحہ اور گولا بارودپہنچاتی رہیں ۔ ہندوستان نے اس موقع پر بھی اپنی مکاری اور عیاری کی انتہا کردی اور وہاں سے آنے والی مال گاڑیاں جب پاکستان میں کھولی جاتی تھیں تو ان میں پتھر اور کوڑا کرکٹ بھرا ہوتا تھا۔
اس لٹی پٹی اور بے سہارا قوم کی بے کسی کی انتہا یہ تھی کہ پہلے یوم پاکستان پر ایک روایت کے مطابق جب فوج نے وطن کو21 توپوں کی سلامی دینا چاہی تو ان کے پاس داغنے کے لیے محض16گولے تھے جبکہ باقی 5پٹاخے چلا کر اس رسم کو ادا کیا گیا ۔
پھربتدر یج یہ تکلیف دہ صورتحال کچھ بہتری کی طرف جانے لگی ، اور لوگ آہستہ آہستہ اپنی ہجرت اور راہ میں بچھڑ جانے والے پیاروں کا غم بھول کر نئے ماحول میں مدغم ہونے لگے ۔ دکھ بھرے دن بیت گئے تھے اور اب لوگوں نے اپنے آزاد وطن میں ہنسی خوشی رہنا سیکھ لیاتھا۔آہستہ آہستہ حالات سدھرتے گئے اور ستے ہوئے چہروں پر ایک بارپھر سے رونق لوٹ آئی تھی۔ ہر طرف مسکراہٹیں بکھیرتے لوگ نظر آنے لگے۔( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )