”کھڈے لائن“ لگا افسرگھر کا رہتا ہے نہ گھاٹ کا،جب آپ ریل کا سفر اختیار کریں تو اس کھڈے لائن کو تلاش کرنے کی کوشش ضرور کیجئے گا

مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:32
سرکاری اور خصوصاً نوکر شاہی محکمے کے دفاترمیں جب کوئی افسر ناپسندیدہ قرار پاتا ہے تو اسے اس کی دفتری مصروفیت سے فارغ کروا کے ایک طرف بٹھا دیا جاتا ہے۔ کچھ زیادہ ہی تپا ہوا باس تو اسے اس وقت تک گھر بیٹھنے کو بھی کہہ دیتا ہے جب تک اس کو دوبارہ طلب نہ کیا جائے۔ اس کو فرنگی زبان میں (OSD) (آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی) بنانا بھی کہہ دیتے ہیں، حقیقتاً اس کو کوئی ڈیوٹی نہیں دی جاتی اور دیسی زبان میں کسی کو”کھڈے لائن“ لگانا اسی لیے کہا جاتا ہے۔ جہاں وہ گھر کا رہتا ہے نہ گھاٹ کا- ہاں اپنی تنخواہ وہ باقاعدگی سے وصول کرتا رہتا ہے۔ ایسا افسر اس وقت تک کھڈے لائن لگا رہتا ہے جب تک اس پر کسی نئے آنے والے افسر اعلیٰ کی نظر کرم نہیں پڑ جاتی، تب وہ اس پر ترس کھا کر اور اسے بلا کر ایک بارپھرقومی دھارے میں واپس لے آتا ہے۔ ایک کام کرنے والے نیک اور ایماندار بندے کے لیے تو یہ ایک بہت بڑی سزا تصور کی جاتی ہے تاہم عادی مجرم قسم کے لوگ تو ایسی سزا ملنے پر بڑی مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ مجھے بھی اس لائن کا مقصد اب کہیں جا کر سمجھ آیا ہے، مناسب سمجھا کہ آپ کو بھی سمجھا دوں تاکہ اگلی بارجب آپ ریل کا سفر اختیار کریں تو اس کھڈے لائن کو تلاش کرنے کی کوشش ضرور کیجئے گا۔
بفرز
بفرز کا ذکر تو کہیں اور آنا چاہئے تھا لیکن میں نے اس خدشے کے تحت اسے یہیں فٹ کر دیا ہے کہ آگے چل کر کہیں یہ اہم نکتہ ذہن سے نہ نکل جائے۔بفرز گاڑی اور انجن کے آگے اور پیچھے لگے ہوئے بڑے بڑے سے دو فولادی پسٹن ہوتے ہیں جو گاڑی کیڈبوں اورانجنوں کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اس کا ایک مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ اگلا ڈبہ اگر بریک لگنے یا کسی اور وجہ سے یکدم آہستہ ہو جائے تو اس کے پیچھے آنے والا ڈبہ کہیں اس پر چڑھ نہ دوڑے اور اس سے ٹکرا کر نقصان نہ پہنچائے۔ ایسے ہلکے سے تصادم کی صورت میں دونوں بفرز کے ہائڈرولک پسٹن اندر دھنس کر اس جھٹکے کی شدت کو سہار لیتے ہیں اور ڈبوں کو براہ راست ضرب نہیں پڑتی۔
ان کا بڑااستعمال جو سب نے دیکھاہوا ہو گا، وہ ریلوے اسٹیشن پر ہوتا ہے، جب پلیٹ فارم پر کھڑی کسی بھی گاڑی کے آگے انجن کو لگانا ہوتا ہے، یا ڈبوں کوآپس میں منسلک کرنا ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا دلچسپ منظر ہوتا ہے جس کو دیکھنے کی خاطر پلیٹ فارم پر کھڑے بہت سارے مسافر ”جائے وقوعہ“ پر پہنچ جاتے ہیں تاکہ اس نظارے سے محروم نہ رہ جائیں۔ انجن آہستہ آہستہ الٹے قدموں مستانی سی چال چلتا ہوا آتا ہے اور اس کے بفر گاڑی کے سب سے اگلے ڈبے والے ساتھیوں سے آن ٹکراتے ہیں۔ پوری گاڑی کو ایک ہلکا سا جھٹکا لگتا ہے، دونوں کے پسٹن ایک خوبصورت دھماکے سے اندر دھنس جاتے ہیں اور محبت بھرے دلوں کی طرح ایک دوجے کے بہت قریب ہو جاتے ہیں۔ نیچے ریلوے لائن پر کھڑا ہوا لائن مین اس موقع کا فائدہ اٹھاتا ہے اور بجلی کی سی پھرتی سے انجن کے ساتھ لٹکتی ہوئی ایک مضبوط فولادی زنجیر پچھلے ڈبے کے آنکڑے میں پھنسا کر دونوں کو آپس میں جوڑ کر جلدی سے زنجیر کے لیور کو مروڑ کر پورے طور پر کس کے انھیں ایک عرصے تک کے لیے وصل آشنا کر دیتا ہے۔ عام حالات میں آگے پیچھے کھڑے ہوئے ڈبوں میں یہ زنجیر نہیں لگائی جا سکتی، اس کے لیے ضروری ہے کہ درمیانی فاصلہ کم ہو۔اس کے لگنے سے پچھلے ڈبے آپس میں جڑ جاتے ہیں۔ اسی دوران وہ بریکوں کے پریشر پائپ اور بجلی کی لائنیں بھی پچھلے ڈبوں سے منسلک کرکے کس دیتا ہے۔ اور یوں گاڑی چلنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ انجن کے پیچھے آنے والے تمام ڈبوں کو آپس میں جوڑنے کی خاطر اس زنجیر کی صحیح طریقے سے تنصیب ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر یہ زنجیر ڈھیلی رہ جائے یا ٹوٹ جائے تو ڈبوں کا وہ حصہ وہیں رہ جاتا ہے اور گاڑی انھیں بھٹکتا چھوڑ کر آگے نکل جاتی ہے اور بسا اوقات تو ڈرائیور کو بھی میلوں دور جا کر اس بات کا علم ہوتا ہے کہ وہ اپنے کچھ قیمتی اثاثے تو راہ ہی میں چھوڑ آیا ہے۔ ایسے یتیم اور مسکین ڈبے کچھ دور تک تو گاڑی کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں اور پھر ان کی رفتار کم ہوتے ہوتے ختم ہو جاتی ہے اور وہ وہیں بیچ میدان میں پہیے پسارے چْپ چاپ اس آس پر کھڑے ہو جاتے ہیں کہ جب ان کو یوں چھوڑ کر جانے والی گاڑی کو ان کی کمی محسوس ہو گی تو وہ الٹے قدموں لوٹ آئے گی اور انھیں ایک بارپھراپنے پیچھے لگا کر لے جائے گی۔ یہ ویسے بھی بہت خطرناک مسئلہ ہوتا ہے کہ اس دوران اگر پیچھے سے دوسری گاڑی آجائے تو شدید تصادم کا اندیشہ ہوتا ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔