شورش کاشمیری ڈرائینگ روم میں بیٹھے تھے، تحریک ختم نبوت عروج پر تھی،بھٹو صاحب کا جواب تھا”جنت کمانا اتنا آسان ہے تو میں یہ کام ضرور کروں گا“

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:73
عوامی میلے میں؛
نویں جماعت(1974) میں تھا تو عوامی میلہ میں شمولیت کا موقع ملا۔ بھٹو صاحب کے دور اقتدار میں سالانہ میلہ مویشیاں کو عوامی میلے کا نام دے کر اسے بہت attractive بنا دیا گیا تھا۔ اس میلے میں ملکی اور غیر ملکی اہم شخصیات شرکت کرتی تھیں۔اس میلے کی ایک اہم ایٹم بچوں کا پی ٹی شو تھا۔ مختلف سکولوں کے بچوں پر مشتمل یہ جتھہ صبح کے شو کی جان ہوا کرتا تھا۔ پی ٹی شو میں حصہ لینے والے بچوں میں میں، خرم، حبیب یوسف، بابر، ہاشم اور 50 کے قریب میرے سکول کے دیگر طالب علم بھی تھے۔اس شو میں تقریبا ً ہزار لڑکے حصہ لیتے تھے جن میں میرے سکول کے100 طالب علم تھے۔ میلہ شروع ہونے سے کئی روز پہلے ہی پی ٹی شو کی مشقیں شروع ہو جاتی تھیں۔ پی ٹی ماسٹرز جو عموماً ریٹائرڈ فوجی ہوتے بچوں کو ان چند دنوں میں ٹرینڈ کر دیتے تھے۔پی ٹی کے علاوہ بچے مختلف کرتب دکھاتے خیر مقدمی نعرے ترتیب دیتے تھے۔ ہم سفید بنیان، نیکر اور سفید پی ٹی شوز(ابھی جاگزر کا زمانہ نہ تھا۔) پہن کر بسوں میں فورٹریس سٹیڈیم پہنچتے تھے اور پھر کئی کئی گھنٹے وہیں رہتے۔refreshment میں ہمیں ٹیٹرا پیک دودھ کا 1ڈبہ اور دد دو کیلے ملتے تھے۔ اس سے کچھ آسرا تو ہو جاتا لیکن پیٹ کے چوہے ناچتے ہی رہتے تھے۔
1974ء کی گرمیوں کی چھٹیوں میں سوشل ورک کے تحت سکول انتظامیہ نے ہم سے سکول کی کچی چار دیواری بنوائی۔ سکول کے سبھی طلباء نے اس میں حصہ لیا اور اس چار دیواری کو مکمل ہونے میں اڑھائی ماہ لگے تھے۔ سکول کے قریب سے پانی کے کھالے سے مٹی کی گاچی نکالتے اور اس گاچی سے یہ چاردیواری تعمیر کرتے۔
تحریک ختم نبوت 1974؛
74 میں ہو نے والا ایک واقعہ تاریخ اسلام میں سنگ میل بن گیا۔ربوہ ریلوے سٹیشن پر ہونے والے واقعہ نے آنے والے دنوں میں تحریک کی شکل اختیار کر لی تھی۔”تحریک ختم نبوت۔“قومی اسمبلی میں یہ مسئلہ پیش کرنے کا ا عزاز بھٹو حکو مت کو ہوا۔ قومی اسمبلی کے کئی طویل سیشنز ہوئے۔ ہر مکتب فکر جن میں قادیانی بھی شامل تھے، اپنا اپنا نقطہ نظرپیش کیا جسے تحمل سے سنا گیا۔ نتیجہ میں قادیانی غیر مسلم اور اقلیت قرار دئیے گئے۔ اس واقعہ کے کئی سال بعد مجھے مشہود نے بتایا تھا؛”ایک روز بھٹو صاحب اور والد(شورش کاشمیری) ہمارے گھر کے ڈرائینگ روم میں بیٹھے تھے۔ ان دنوں تحریک ختم نبوت عروج پر تھی۔ والد نے بھٹو صاحب کو اس مسئلے پر بریف کرتے ایک فقرہ کہا تھا؛”ان کو اقلیت قرار دے کر جنت کمائی جا سکتی ہے۔“ بھٹو صاحب کا جواب تھا؛”شورش! اگر جنت کمانا اتنا آسان ہے تو میں یہ کام ضرور کروں گا۔“پھر اللہ نے بھٹو صاحب سے ہی یہ کام لیا۔جب یہ بل پاس ہواتو بھٹو صاحب اور والد کے بیچ اختلافات ہو چکے تھے۔اس کے باوجود”چٹان“ کے سرورق پر بھٹو صاحب کی تصویر کے ساتھ بیک گراؤنڈ میں علامہ اقبال، قائد اعظم، مولانا ظفر علی خاں اور عطا اللہ شاہ بخاری کی تصاویر تھیں اور سرخی تھی۔ ”ان کے خوابوں کی تعبیر۔“
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔