قاضی حسین احمد: مدبر اور جرات مند سیاست دان
جماعت اسلامی کے دو بڑے رہنما چند روز کے وقفے سے رخصت ہوگئے۔ابھی پروفیسر غفور احمد کی موت کا صدمہ کم نہیں ہوا تھا کہ قاضی حسین احمد کے جانے کی خبر آگئی۔ قاضی حسین احمد پر کچھ عرصہ پہلے وزیرستان میں جو خودکش حملہ ہوا تھا،اُس کے بعد ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑگئی تھی اور کہا جانے لگا تھا کہ اگر دہشت گردوں کے ہاتھوں قاضی حسین احمد جیسا اُمت مسلمہ کے اتحاد کا داعی محفوظ نہیں، تو پھر سمجھ لینا چاہے کہ اِس کے پردے میں اسلام دشمن قوتیں سارا کھیل کھیل رہی ہیں۔پھر جب اِس واقعہ کے چند روز بعد پشاور ائیر پورٹ پر حملہ ہوا اور دہشت گرد مارے گئے تو اُن کے جسموں پر ٹیٹو کے بنے ہوئے نشانات نے اِس بات کو درست ثابت کردیا کہ دہشت گردی میں صرف طالبان ہی نہیں، کچھ اور قوتیں بھی ملوث ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ قاضی حسین احمد74سال کی عمر میں بھی ایک متحرک اور جواں ہمت رہنما کی طرح اپنا مشن جاری رکھے ہوئے تھے ....لیکن پھر اچانک اُنہیں بلاوا آگیا اور وہ فانی دُنیا سے مستقل دُنیا میں چلے گئے۔
قاضی حسین احمد ایک عہد ساز شخصیت تھے۔اُنہوں نے جب جماعت اسلامی کی قیادت سنبھالی تو اُس میں ایک نئی رُوح پھونک دی۔عوامی مسائل سے دُور رہنے کی جو روایت اِس جماعت میں موجود تھی، اُسے قاضی حسین احمد نے ایک تحرک اور جدوجہد میں تبدیل کردیا۔یہ اُنہی کے ذہنِ رسا کا کرشمہ تھا کہ اُنہو ں نے جماعت اسلامی کو تنگنائے سے نکال کر عوام کے سمندر میں لاکھڑا کیا۔ اُن کے جرات مند عوامی کردار کی وجہ سے جب”ظالمو! قاضی آرہا ہے“کا نعرہ وجود میں آیا تو دیکھتے ہی دیکھتے ضرب المثل بن گیا۔ یہ نعرہ صرف ایک نعرہ ہی نہیں تھا،بلکہ جماعت اسلامی کی سوچ اور فکر میں آنے والی ایک تبدیلی بھی تھی۔ اُنہوں نے جماعت اسلامی کو گلے سٹرے نظام کی تبدیلی کا استعارہ بنادیا۔یہ وہ دور تھا جب آج کی طرح بات نہیں کی جاتی تھی جیسے اب سبھی کررہے ہیں، بلکہ اُس زمانے میں شاید جماعت اسلامی ہی وہ واحد جماعت تھی جس نے قاضی حسین احمد کی امارت میں اِس نعرے کو عام کیا۔ قاضی حسین احمد تھانوں میں مظلوموں کی امداد کے لئے پہنچ جاتے اور ظالموں کے خلاف خود مظلومو ں کے ساتھ آکھڑے ہوتے۔
اُنہی دنوں یہ بھی کہا گیا کہ قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے لئے گوربا چوف کا کردار ادا کررہے ہیں،کیونکہ جماعت اسلامی کی سیاست یا تنظیم کا یہ سٹائل نہیں تھا،جسے قاضی صاحب نے متعارف کرایا.... لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات ثابت ہوئی کہ قاضی حسین احمد کی اِس پالیسی نے جماعت اسلامی کو قومی دھارے کی ایک اہم سیاسی جماعت بنادیا ۔ایک ایسی جماعت جس پر ایک خاص نظریے کی محدودیت کا لیبل لگا ہوا تھا،ایک موثر جماعت کے طور پر اُبھری او ر بعد ازاں اِس تبدیلی کی علامت بن گئی۔ قاضی حسین احمد کی اِس پالیسی کو خو د جماعت کے اندر اِس طرح سراہا گیا کہ اُنہیں جماعت کی دوبارہ امارت سونپ دی گئی۔ قاضی حسین احمد کا متحدہ مجلس عمل کی تخلیق میں بھی کلیدی کردار تھا۔یہ سیاسی ومذہبی جماعتوں کا ایک ایسا اتحاد تھا، جس نے ایک اہم سیاسی طاقت کے طور پر اپنا وجود منوایا۔اِس کی مقبولیت کا ثبوت اُس وقت ملا جب خیبر پختوخوا میں متحدہ مجلس عمل نے صوبائی حکومت بنائی اور قومی اسمبلی میں بھی قابل ذکر نشستیں حاصل کیں۔اگرچہ متحدہ مجلس عمل سے وابستہ توقعات پوری نہ ہوسکیں اور مختلف مسائل ومذہبی ایشوز کی وجہ سے سرحد میں اُن کی حکومت کوئی قابل ذکر کام نہ کرسکی ،جس کا خود قاضی حسین احمد بھی اعتراف کرتے تھے ۔ متحدہ مجلس عمل کے ختم ہونے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمن کی سوچ مختلف تھی۔
اِس تلخ تجربے کی وجہ سے جماعت اسلامی نے متحدہ مجلس عمل کی تشکیل میں حصہ نہ لیا اور جماعت کے بغیر اُس کی مقبولیت بھی دوبارہ اُس طرح کی نہ بن سکی جیسی کہ پرویز مشرف کے زمانے میں تھی۔یہ قاضی حسین احمد کی پالیسیوں کا ہی اثر تھا کہ جماعت اسلامی سیاست میں تنہا پروا ز کرنے کے قابل ہوئی ،وگرنہ اِس سے پہلے جماعت اسلامی کے بارے میں یہ تصور موجود نہیں تھا کہ وہ کسی اتحاد میں شامل ہوئے بغیر بھی اپنا کوئی وجود رکھتی ہے۔جماعت اسلامی پر قاضی حسین احمد کی امارت میں ایک دور تو ایسا بھی آیا کہ جب گلی محلے میں یہ با ت ہونے لگی کہ آئندہ حکومت جماعت اسلامی کی بنے گی۔ ایسا صرف قاضی صاحب کی عوامی شخصیت کی وجہ سے ہوا، وگرنہ اِس سے پہلے جماعت اسلامی پر ایک مذہبی جماعت کی گہری چھا پ موجود تھی،لیکن قاضی صاحب کی پالیسیوں کے باعث مزدور، کسان،محنت کش اور دیگر نچلے طبقوں کے افراد بھی جماعت اسلامی کو اپنی پارٹی سمجھنے لگے۔آج بظاہر یوں لگتا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی وجہ سے ہر طرف”قادری آرہا ہے“ کے نعرے لگ رہے ہیں، لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جب” قاضی آرہا ہے“ کا نعرہ عام ہو ا تو یہ کبھی نہیں کہا گیا کہ ہم دھرنا دے کر اقتدار پر قبضہ کرلیں گے، بلکہ ہمیشہ استحصالی نظام کو بدلنے کی بات کی گئی اور اِس سے بھی زیادہ اِس بات کو بطور حکمت عملی اختیار کیا گیا کہ عوام میں حقوق کا شعور بیدار کیا جائے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ شیخو پورہ کے علاقے میں ایک بدمعاش بشارتی نے فرزانہ نامی ایک لڑکی کی عصمت برباد کرکے اُسے قتل کردیا تھا۔پولیس اُس پر ہاتھ نہیں ڈالتی تھی، کیونکہ و ہ علاقے کا نامی گرامی اور خطرناک غنڈہ اور زمیندار تھا۔ مظلوموں کی امداد کے لئے قاضی حسین احمدنے موقع پر جانے کا اعلان کیا او ر وہاں پہنچ گئے۔اُن کے جانے سے پہلے ہی پولیس حرکت میں آگئی اور بشارت کو گرفتار کرنے اُس کے ڈیرے پر پہنچ گئی،جہاں وہ پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ اِس کے باوجود قاضی حسین احمد موقع پر گئے اور اُنہوں نے وہاں اکٹھے ہونے والے لوگوں سے جو خطاب کیا،وہ بہت یادگار تھا۔
اُنہوں نے کہا کہ جب تک آپ سیاست اور معاشرے میں چھپے بشارتی جیسے غنڈوں اور بدمعاشوں سے ڈرتے رہیں گے،یہ آ پ کو عزت سے جینے کا موقع نہیں دیں گے۔آپ سب متحد ہوکر اِن کے خلاف کھڑے ہوجائیں۔اُن کے مظالم پر آنسو بہانے کی بجائے اُن کے گریبان میں ہاتھ ڈالیں اور اگر ریاستی مشینری کا ادارہ آپ کی مدد کو نہیں آتا تو اُس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں....اِس قسم کے لاتعداد واقعات میرے ذہن کی سکرین پر گردش کررہے ہیں۔جماعت اسلامی کو جس طرح منصورہ سے نکال کرقاضی حسین احمد نے عوا م کی دسترس میں دیا،مَیں سمجھتا ہوں وہ ایک جرات مندانہ کام تھا۔یہ اِس امر کا بھی اظہار تھا کہ جماعت اسلامی میں جسے امارات سونپی جاتی ہے ،پھر اُس کی اطاعت کی جاتی ہے۔ قاضی حسین احمد کا شمار جماعت اسلامی کی تاریخ کے اُن رہنماﺅں میں ہوتاہے، جنہوں نے اپنی شخصیت کو پورے ملک کے لئے قابل قبول اور قابل احترام بنادیا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ قاضی حسین احمد نے اپنے کردار وعمل سے ایک قومی رہنما کا درجہ حاصل کیا۔اُنہیں چاروں صوبوں میں پذیرائی حاصل تھی او ر سیاسی مخالفین بھی اُن کے تدبر،جرات مندی اور صاف گوئی کی تعریف کرتے تھے۔
جس طرح80ءکی دہائی میں پروفیسر غفور احمد کا ایک بھرپور مدابرنہ کردار سامنے آیا،جب اُنہوں نے پی این اے اور پیپلز پارٹی کے درمیان معاہدے تک پہنچنے میں تاریخی کردار ادا کیا،اِسی طرح قاضی حسین احمدنے بھی90ءکی دہائی میں ایک ایسی شخصیت کے طور پر خود کو منوایا،جو بحران کے دنوں میں ایک پل کا کام دے سکتی ہے اور جس پلڑے میں خود کو ڈالے،اُسے بھاری کردیتی ہے۔ قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کی امارت سے سبکدوش ہونے کے باوجو د خود جماعت اسلامی کے لئے بالخصوص اور پاکستانی سیاست کے لئے بالعموم ایک بڑی طاقت کی حیثیت رکھتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ اُن پر ہونے والے حملے کو نہ صرف جماعت اسلامی، بلکہ پوری پاکستانی قوم اور سیاسی جماعتوں نے قابل مذمت قرارد یا ۔کہنے کو یہ جملہ رسمی سا لگتا ہے کہ فلاں کا خلا پورا نہیں ہوسکتا، مگر حقیقت یہ ہے کہ قاضی حسین احمد جیسے رہنما کی کمی قدم قدم پر محسوس ہوگی، وہ اب اُس مقام پر تھے کہ جہاں اُن کی آواز سب سے بلند بھی تھی اور پوری قوم اُسے توجہ سے سنتی بھی تھی۔اُن کی وفا ت سے جہاں جماعت اسلامی ایک اہم اور مثالی رہنما سے محروم ہوگئی ہے ،وہیں یہ پاکستان اور پاکستانی سیاست کے لئے بھی ایک بڑا نقصان ہے۔اﷲ تعالیٰ اُنہیں غریق رحمت کرے۔آمین