اتحاد ِ امت کے عظیم داعی قسط نمبر(2)

اتحاد ِ امت کے عظیم داعی قسط نمبر(2)

  

 -Oقاضی صاحب کی تعمیر:قاضی صاحب کی شخصیت کے کئی پہلو تھے، وہ اپنی ذاتی حیثیت میں بھی بڑے انسان تھے، وہ جمعیت علماءہند کے ایک بہت بڑے عہدے دار کے بیٹے تھے، لیکن ان کی شخصیت سازی کے حوالے سے جماعت اسلامی کا جو کردارہے وہ بہت واضح ہے۔ ان کی تعمیر و تشکیل میں جماعت اسلامی نے بنیادی کردار اداکیا۔ جماعت اسلامی نہ ہوتی توقاضی صاحب بھی وہ قاضی صاحب نہ ہوتے جن کو ہم جانتے ہیں۔ قاضی صاحب تو بعد میں آتے ہیں، مولانا مودودیؒ کو لے لیجیے، انہوں نے سو کتابیں لکھی ہیں، دو سو بھی لکھی ہوتیں اور جماعت اسلامی نہ بنائی ہوتی تو لوگ اب تک انہیں بھول چکے ہوتے۔ خال خال کہیں ان کی کوئی چیز مل جاتی اور بس۔ یہ جو ایک سو زبانوں میںان کی کتابوں کے ترجمے ہو ئے ہیں، تو اس میں ان کی تحریک کا کردار کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے خود مولانا مودودیؒ بھی اگر اب تک لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں تو اس کا بڑا سبب اور وجہ جماعت اسلامی ہے جس کی انہوں نے بنیاد رکھی تھی۔ اس لیے میںسمجھتا ہوںکہ جو بھی شخص جماعت اسلامی میں ہے اس کے اندر جو خوبیاں ہیں اس کی شخصیت کی تعمیر کا کریڈٹ جماعت اسلامی کوجاتا ہے۔ قاضی صاحب نے جماعت اسلامی کو مضبوط بنانے اور اسے منظم کرنے کے لیے بہت کام کیا، لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جماعت اسلامی نے قاضی حسین احمد کو بنانے میں اور ان کے حوالے کو مضبوط کرنے میںزیادہ کام کیا اور اس حوالے سے کوئی استثنیٰ بھی نہیں۔قاضی صاحب اور جماعت اسلامی نے روس کے خلاف افغانوں کی جدو جہد میں تاریخی کردار ادا کیا، اس میں صرف اور صرف اللہ کی رضا اور خوش نودی ہمارے پیش نظر تھی۔ ہم نے وہی کیا جو پاکستان کے بہترین مفاد میںتھا اور ہمارے عقیدے کا تقاضا تھا۔ ہمارا موقف ہمارے اپنے دلائل کی بنیاد پر تھا۔ ہم سمجھتے تھے جہاد افغانستان درست ہے، روسی فوجوں کا آنا غلط ہے، روس کی افغانستان میں کامیابی پاکستان کی سلامتی اور آزادی کے لیے خطرناک ہے، اس لیے ان کو واپس جانا چاہیے اور اس معاملے پر ہمیں افغانوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ اگر آپ کے دلائل کے نتائج یہ ہیں اور اتفاق سے آپ کا دشمن بھی اسی نتیجے پر پہنچا ہے تو اس وجہ سے آپ اپنا موقف چھوڑنہیںدیں گے۔ کیا اس خیال سے کہ امریکہ اس جنگ سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ہم افغانوں کی حمایت ترک کر سکتے تھے؟

-Oمیری حلف برداری:امارت کے انتخاب کے بعد کافی عرصے تک ہم لوگ حلف برداری کی تقریب منعقدنہیں کر رہے تھے۔ میںنے قاضی صاحب سے کہا، شوریٰ کا اجلاس بلایا جائے، میں اپنی بات ارکانِ شوریٰ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، پھر دیکھا جائے گا کہ کیا کیا جائے۔ لوگوں کو بھی بہت فکر ہو رہی تھی کہ زیادہ وقت گزر رہا ہے اب تک حلف ہو جانا چاہیے۔ میں نے شوریٰ کے اجلاس میں لوگوں سے کہا، دیکھیں مولانا مودودیؒ اکتیس سال تک جماعت اسلامی کے امیر رہے، ۲۷۹۱ءمیں جب انہوں نے استعفا دیا اور معذرت کی جو لوگوں نے قبول کی تو اس وقت ان کی عمر ۹۶ برس تھی۔ میاں صاحب پندرہ سال امیر رہے اور ۷۸۹۱ءمیں جب انہوں نے امارت سے معذرت کی تو اس وقت ان کی عمر ۴۷ برس تھی۔ یہی معاملہ قاضی صاحب کا ہے۔ لیکن مجھے آپ امیر بنا ہی اس عمر میں رہے ہیں جس عمر میں لوگ امارت چھوڑتے رہے ہیں۔ اس لیے میرے خیال میں یہ جماعت کے ساتھ بھی انصاف نہیں اور خود میری ذا ت کے ساتھ بھی انصاف نہیں، کیوں کہ اس عمر میں آدمی کی استعداد کار اور چلت پھرت کم ہو جاتی ہے اور کام میں دلچسپی بھی ویسی نہیں رہتی جیسی عمر کے دوسرے حصوں میں ہوتی ہے۔ اس لیے آپ میری معذرت قبول کر لیں اور اس کے علاوہ مجھے کوئی ذاتی الجھن یا پریشانی نہیں۔ ابھی دو چار لوگوں نے ہی اس پر بات کی تھی کہ قاضی صاحب نے حکم صادر فرما دیا:” بس جی اور کوئی بات نہیں سننی، ان سے کہیں کہ حلف اٹھائیں“۔ اس کے بعد یہ اسی وقت طے ہو گیا کہ اسی شام حلف برداری ہو گی۔ اس طرح کی بات جب ان کی اور شوریٰ کی طرف سے آ گئی تو ظاہر ہے مجھے کوئی بحث مباحثہ تو نہیں کرنا تھا ۔

-Oمحبت واحترام کا رشتہ:میں اور قاضی صاحب طویل مدت کے لیے اکٹھے رہے، ہم نے ہمیشہ اتفاق ہی نہیں کیا، ایک دوسرے سے اختلاف بھی کیا ہے، لیکن کبھی ماحول خراب نہیں ہونے دیا، تندی اور تیزی نہیں پیدا ہونے دی۔ میری طرف سے اگر کبھی کبھار اختلاف کا اظہار ہوا بھی ہے تو انہوں نے نرمی اور ملائمت سے اس کا سامنا کیا ہے اور مجھے بھی اسی راستے پر چلنے کے لیے کہا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی تکلف نہیں کہ میرے ساتھ قاضی صاحب کا ذاتی معاملہ بہت زیادہ احترام، محبت اور تعلق خاطر پر مبنی تھا۔ میں یہ بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ قاضی صاحب نے ہمیشہ مجھے بہت احترام بھی دیا اور محبت بھی دی ہے۔ ہمارے درمیان عمر میں صرف چار سال کا فرق تھا، لیکن مسئلہ عمر کا نہیں ہوتا، پوری جہتوں کا ہوتا ہے اور جو علم و فضل کی دنیا ہے اصل عمر تو وہ ہوتی ہے۔ ظاہر ہے وہ ان تمام پہلوﺅں سے بہت آگے تھے۔

-Oاقبالؒ اور شہادت سے محبت: انہوں نے مجھ سے کئی بار یہ بات کہی اور میں اسے آگے پہنچانا چاہتاہوں کہ جماعت اسلامی کی دعوت کو فروغ دینے کے لیے علامہ اقبال کو پیش کرتے رہنا چاہیے، ان کا کلام بھی جماعت اسلامی کی دعوت ہی ہے۔ اس میں دعوت بھی ہے، جہاد بھی ہے اوراس میں امت کے لیے آگے بڑھنے کا پیغام بھی ہے، قیادت و سیادت بھی ہے اور سیاست بھی یہ بالکل ٹھیک بات ہے، اس لیے کہ علامہ اقبالؒ کے ساتھ اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کی ذہنی اور عملی وابستگی پہلے ہی موجودہے، ان کے لیے تقدس اور احترام بھی موجود ہے، اس اعتبار سے ان کی یہ بات حکمت اور دانائی کی ہے اور یہ پہلے سے موجود پس منظر میں ان کاایک ایسا انقلابی فیصلہ تھا جس نے جماعت کو بہت کچھ دیا۔ اس کے علاوہ ان کی زندگی کے اندر میں نے یہ بہت محسوس کیا کہ وہ شہادت کی موت کی شدید آرزو رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ شوریٰ کے اندر کوئی تندی وتلخی پیدا ہو گئی۔ قاضی صاحب اس وقت میاں صاحب کے ساتھ جماعت کے سیکرٹری جنرل تھے، افغانستان کے معاملات کو وہی دیکھتے تھے۔ میاںصاحب بھی اپنی وضع کے آدمی تھے، انہوں نے کوئی ایسی بات کہہ دی جو قاضی صاحب کے لیے قابل قبول نہ تھی۔ قاضی صاحب نے کہا، پھرمجھے فارغ کر دیں۔ اس پرکسی نے کہا، آپ فارغ ہو گئے تو کیا کریں گے؟ قاضی صاحب نے کہا، میں افغانستان چلا جاﺅں گا، وہاں جا کر گم ہو جاﺅں گااور وہیں شہید ہو جاﺅں گا۔ یہ آرزو اور تمنا ان کے دل میںکہیںبہت گہرائی میں موجود تھی۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے اپنے معاملات ہیں کہ شہادت کی موت نہیں بھی ہوتی، تووہ شہادت کا ثواب دے دیتا ہے، یہ تو اس کی اپنی کارسازی ہے۔(ختم شد)

مزید :

کالم -