ڈارون کے مقابلے میں

ڈارون کے مقابلے میں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 ہمیں ڈارون کے نظریہ ارتقاء کے بعد مدت سے اہل مغرب سے کسی نئے نظریہ ارتقاء کا شدت سے انتظار تھا لیکن ڈارون کے بجائے ’ڈروان‘ ٹیکنالوجی کے احیاء نے ہمیں اہل مغرب سے مایوس کر دیا۔ ڈارون کے انتظار میں ’’ڈرون‘‘ ملنے پر ہم نے خود ایک نظریہ ارتقاء دینے کا فیصلہ کیا ہے جو ہے حکمرانی کا نظریہ ارتقاء۔۔۔ تو صاحبو بات کچھ یوں ہے کہ ماضی میں حکمران طاقتوں نے تیسری دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنے کیلئے یہاں کے خام مال اور کم اجرت پر دستیاب انسانی وسائل سے فائدہ اٹھانے اور اپنی صنعتی اشیاء کی کھپت کی منڈیوں کی تلاش میں نو آبادیاتی نظام کو پروان چڑھایا اور برصغیر میں بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے توسط سے قبضہ جما لیا لیکن ایسا کرنے کیلئے کئی معرکے لڑنے پڑے۔ پلاسی، اودھ، میسور، سندھ، پنجاب کی جنگیں اور پھر جنگ آزادی لڑنا پڑی۔ مخالفین کو کالا پانی کی سزائیں دینا پڑیں۔۔۔ استحصال کا الزام سر لینا پڑا۔ خلافت، ہندوستان چھوڑ دو، تحریک آزادی جیسی تحریکوں کا سامنا کرنا پڑا۔۔۔ جلیانوالہ باغ جیسے واقعات سے اپنی دھاک بٹھانا پڑی۔ کئی کالے قوانین کے ذریعے بدنامی سمیٹنا پڑی لیکن اس انداز میں وقت کیساتھ ساتھ تبدیلی ہوئی اور آج حال یہ ہے کہ کسی بڑی طاقت پر تیسری دنیا پر حکمرانی، جبر، استحصال کی تہمت نہیں ہے۔ آپ آج بھی اپنے فیصلہ کرنے میں آزاد نہیں ۔ آپ آج بھی امدادی اداروں، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشیاء بینک وغیرہ کے کہنے پر سبسڈی ختم کر رہے ہیں۔ بجلی، گیس اور پیٹرول پر ٹیکس لگا کر اپنی اشیاء کی پیداواری لاگت بڑھا رہے ہیں۔ اسی طرح آپ خود اپنی کرسی کی قدر کم کرنے پر بھی مجبور ہیں۔ آپ اپنے ملک کو اپنی ہی پالیسیوں کے ہاتھوں خام مال اور کم اجرتوں کے باوجود بیرونی اشیاء کی منڈی بنانے پر مجبور ہیں۔ اپنی زبان اپنے ہاتھوں ختم کر رہے ہیں۔ اپنا مذہب، تشخص، روایات، تہذیب خود داؤ پر لگا رہے ہیں۔۔۔ اپنے قیدیوں تک کو سزائیں دینے کیلئے پیشیاں بھگتنے پر مجبور ہیں۔ اپنا نصاب اپنی مرضی کا نہیں بنا سکتے۔ کوئی بھی کھیل اپنے قوانین کے تحت نہیں کھیل سکتے تو پھر آپ کی آزادی آپ کی حکمرانی تو نام کی ہوئی نہ۔۔۔۔ آج کی طاقتوں نے ارتقائی متبادل کے بعد ایک ایسا انداز حکمرانی حاصل کر لیا ہے جس سے اب انہیں ظلم، قتل و غارت، جنگ و جدل کی زحمت نہیں۔ ان کے خلاف کوئی تحریک نہیں، کوئی الزام نہیں نہ ہی بدنامی بلکہ وہ تو محکوم اقوام کو انسانی حقوق کے سنہرے درس دیتی ہیں۔۔۔ خدا ترس ہیں۔۔۔ امداد دیتی ہیں، تحفظ چاہتی ہیں، حفاظت کیلئے اسلحہ دیتی ہیں۔ ترقی کیلئے قرضہ دیتی ہیں اور پھر انہی قرضوں کے اوپر سود کے جال میں جکڑ کر آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر امدادی اداروں کے ریموٹ کنٹرول سے آپ ہی سے وہ تمام مقاصد حاصل کر رہی ہیں جن کے لئے نو آبادیاتی نظام وجود میں آیا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب حکمرانی کی تہمت ان پر نہیں۔ کاش کوئی ڈارون صاحب حکمرانی کا نظریہ ارتقاء پیش کرتے۔ ہمیں امید ہے کہ نتیجہ مختلف رہتا۔ ان کے جانداروں میں نظریہ ارتقاء کی تو بہت سے حلقوں نے مخالفت کی جس میں مذہبی حلقے پیش پیش تھے لیکن حکمرانی کے اس نظریہ ارتقاء کے بارے میں ہمارا دعویٰ ہے اہل دانش، اہل منطق، اہل معیشت، اہل تاریخ سمیت تمام مذہبی حلقے بھی ہمارے حکمرانی کے نظریہ ارتقاء کو جھٹلا نہیں سکیں گے۔

مزید :

کالم -