پاکستان کی خارجہ پالیسی، نئے افق پر
کسی ملک کی کامیاب خارجہ پالیسی اس کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ کسی بھی ملک کی ترقی کا پیمانہ جانچنے کیلئے اس کی خارجہ پالیسی اور خارجہ تعلقات کو مدنظر رکھا جاتا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ کمزور خارجہ پالیسی ملک کو معاشی اعتبار سے بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ اسی لیے وزیر خارجہ یا مشیر خارجہ کے چناؤ میں بہت احتیاط سے کام لیا جاتا ہے۔ خارجہ پالیسی کی کامیابی جانچنے کیلئے کوئی خاص پیمانہ نہیں۔ اس کے ثمرات طویل مدتی اور درمیانی مدت پر بھی محیط ہو سکتے ہیں۔ حکومت پالیسیاں تشکیل دیتے ہوئے ملکی مفاد اور عالمی تبدیلیوں کو پیشِ نظر رکھتی ہے۔
موجودہ دَور میں پاکستان میں وزیر خارجہ کے اختیارات وزیراعظم نواز شریف کے پاس ہیں اور انہوں نے مشیر خارجہ کیلئے ایک زیرک اور تجربہ کار سیاستدان کا چناؤ کیا ہے جو مختلف ادوار میں پاکستان کے کامیاب وزیر خارجہ رہ چکے ہیں اور پاکستان کی بہترین نمائندگی کر چکے ہیں۔ اقوام عالم خصوصاً اسلامی ممالک سے ان کی تعلقات بڑھانے کی کوششیں قابلِ ذکر ہیں۔ پاکستان میں ترکی کی سرمایہ کاری اسکی ایک مثال ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب اور یمن کی کشیدگی کے دوران وزارتِ خارجہ کی بہترین حکمت عملی سے نہ صرف پاکستان کے تعلقات اسلامی ممالک سے خراب ہونے سے بچ گئے بلکہ خطے میں جنگ کا خطرہ بھی ٹل گیا۔ اسی اثناء میں سعودی ایران تنازعے نے پاکستان کو مشکل میں ڈال دیا۔ سعودی عرب اور ایران دونوں ممالک نے کوشش کی کہ پاکستان کو اپنے ساتھ کر لیں لیکن پاکستانی حکومت خاص طور پر نواز شریف نے کسی ایک کا ساتھ دینے کی بجائے مصالحتی کردار ادا کیا۔ اس وقت نہ صرف خطے بلکہ دنیا کی نظریں پاکستان کے مصالحانہ کردار پر تھیں اور اسلامی ممالک کے دو بلاک پاکستان کی کامیاب خارجہ پالیسی کی بدولت بننے سے بچ گئے۔ اس وقت پاکستان کی جانب سے کسی بھی قسم کی غفلت کی بدولت نہ صرف عالمِ اسلام بلکہ پوری دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہو جاتی جو تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ ہو سکتی تھی۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی تمام ممالک سے اچھے تعلقات کی خواہاں ہے۔ اقتصادی ڈپلومیسی، قومی مفادات کا تحفظ، علاقائی اور بین الاقوامی امن، بھیک نہیں تجارت اور پاکستانی تارکین وطن کی عوامی خدمت پاکستانی خارجہ پالیسی کے بنیادی اصول ہیں۔ گزشتہ تین برسوں میں وزیراعظم نواز شریف کی زیر قیادت پاکستان نہ صرف ان اصولوں پر کاربند رہا بلکہ اپنی مصروفیات اور تعاون میں ثابت قدم بھی رہا اور بین الاقوامی برادری کے تعاون سے نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا میں امن و ترقی، سلامتی و خوشحالی کی راہیں بھی ہموار کرتارہا۔
افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستان کی کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے تعاون کو سراہا اور افغانستان میں امن کے لیے افغان طالبان اور افغان قیادت کے درمیان خلاء کو پر کرنے کیلئے اہم کردار ادا کیا۔ افغانستان کے ساتھ حالیہ سرحدی انتظامی معاہدہ بھی موجودہ قیادت کی کامیابی ہے۔
دوسری طرف چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات میں اضافہ، پاکستان کا شنگھائی تعاون کی تنظیم کا رکن بننا اور پاک چین اقتصادی راہداری جس سے پاکستان میں معاشی خوشحالی کی نئے راہیں کھلیں گی ایک کامیاب خارجہ پالیسی کی ہی بدولت ہے۔ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات صرف معیشت تک محدود نہیں بلکہ یہ سکیورٹی اور انسداد دہشت گردی کا بھی احاطہ کرتے ہیں۔ چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے اقتصادی تعلقات نے امریکہ پر دفاعی انحصار کم کر دیا ہے۔ J-F17تھنڈر پاکستان اور چائنہ کی دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔اب اگر وسط ایشیا سے تعاون پر نظر ڈالیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ تاپی اور CASA-1000 توانائی منصوبہ پاکستان سے توانائی کا بحران ختم کرنے میں ممدو معاون ثابت ہونگے اور پاکستان بجلی کے معاملے میں خود کفیل ہو جائے گا۔ اس حکومت نے روس کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی ہے۔ اس سے قبل حکومتیں امریکہ کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دیتی تھیں جس کی وجہ سے روس کا انڈیا کی طرف جھکاؤ ہو گیا۔ وزارت خارجہ کی بہتر حکمت عملی سے پاکستان اور روس کے تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے درست اقدام معیشت کے بڑھاوے کا بھی باعث ہوں گے، یہ کہ حالات کی مناسبت سے بڑی پیش رفت ہے۔
جہاں تک انڈیا کے نیو کلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت کا تعلق ہے پاکستان نے بھر پور اور دور اندیش لابنگ کے ذریعے انڈیا کا نیو کلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت کے امکان کو ختم کر دیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے ذاتی طور پر17 ملکوں کے وزرائے اعظم کو اعتماد میں لے کر خطے کو بد امنی کی طرف رخ کرنے سے بچا لیا۔ نیوکلیئر سپلائر گروپ بھارت کی رکنیت کی درخواست پر اتفاق رائے تک پہنچنے میں ناکام رہی۔ اس کے بین الاقوامی ایٹمی تجارت کمیٹی کے کئی ارکان نے این پی ٹی کی شرائط کے عین مطابق بھارت کی شمولیت کے لیے اصرار کیا لیکن پاکستان اپنے موقف میں ڈٹا رہا کہ اگر بھارت کو ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے رکن ہوتے ہوئے شمولیت دی جا سکتی ہے تو پاکستان کو بھی اس کا کارکن بنایا جائے کیونکہ دونوں ممالک ایک ہی معیار کے حقدار ہیں۔ یہاں پر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کی حمایت یافتہ عالمی طاقتوں مثلاً امریکہ، جاپان اور دوسرے مغربی ممالک کی لابنگ مضبوط ہے یا پاکستان کی۔بھارت کے امریکہ کے ساتھ بڑھتے ہوئے سٹریٹجک تعلقات کی بدولت بھارت پاکستان میں راہداری کو فروغ دے کر اس پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے تحت تمام تنازعات کے پر امن حل کا خواہشمند ہے۔ کشمیر میں بھارتی جارجیت کی انتہا ہو چکی ہے۔ مودی سرکار کی ظالمانہ کارروائیوں سے ہزاروں کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔ پاکستانی حکومت مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھارتی حکومت کو بار ہا مذاکرات کی دعوت دے رہی ہے مگر وہ ہمیشہ مذاکرات سے گریزاں رہی ہے۔ بھارتی حکومت مسئلہ کشمیر کے بجائے دہشت گردی کے موضوع کو ترجیح دیتی ہے لیکن پاکستان نے بھارت پر واضح کر دیا ہے کہ مذاکرات اسی صورت میں ممکن ہیں جب کشمیر کا موضوع سر فہرست ہو گا۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ایک اور کامیابی دسمبر 2013میں پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ ملنا ہے جس سے پاکستان کو یورپی یونین کے ملکوں میں پاکستانی برامدات کو ڈیوٹی فری رسائی حاصل ہوئی۔ پاکستان نے ایک انتہائی اہم اور بڑے تجارتی پارٹنر کے طور پر یورپی یونین کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دیا ہے۔ اس وقت حکومت یورپ میں ایک بڑی پاکستانی تارکین وطن کی موجودگی کے ذریعے ثقافتی اور اعلیٰ ربط کو مضبوط کرنے پر کام کر رہی ہے۔ پاکستان نے پوری ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے مشترکہ خوشحالی اور خطے میں امن کے فروغ اور اقتصادی تعلقات پیدا کرنے کیلئے ایک نئی داستان تیار کر لی ہے۔ پاکستان کی کامیاب خارجہ پالیسی اس کو نئی راہ پر گامزن کر دے گی۔
سول و ملٹری قیادت کے ایک صفحے پر ہونے سے آپریشن ضربِ عضب اور کراچی آپریشن کو خاطر خواہ کامیابی ملی ہے۔ معاشی اشارے بھی مثبت تبدیلی کی ضمانت دے رہے ہیں۔ دنیائے اسلام خصوصاً ترکی، سعودی عرب، ایران اور قطر سے پاکستان نے دوستانہ روابط برقرار رکھے ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی تمام ممالک خصوصاً اسلامی ممالک سے برادرانہ تعلقات کی حامی ہے اور متوازن تعلقات پاکستان کی خارجہ پالیسی کا خاصہ ہیں۔ شام کیلئے ہماری پالیسی متوازن ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں دوسرے ملکوں کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا عنصر غالب ہے اور رہے گا۔ ملکی مفاد اور تمام ممالک سے دوستانہ تعلقات ہماری خارجہ پالیسی کا اہم حصہ ہیں۔