اقوام متحدہ کی آنکھیں کشمیر پر اپنی منظور کردہ قراردادوں پر بند ہیں: میاں رضا ربانی
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر ) چئیرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ،اقوام متحدہ عراق بارے قرارداد پر امریکی مقاصد کے لیے تو عملدرآمدکرا سکتا ہے تاہم کشمیر پر منظور شدہ اپنی قراردادوں ہر اسکی آنکھیں بند ہیں،جو ادارہ ہمارے حقوق کا تحفظ نہ کر سکے ہمارا ایسے ادارے سے کیا تعلق؟اقوام متحدہ مغربی اور امریکی امپیریل ازم پر رقص کرنے پر مجبور ہے،وہ ایک ایسا ادارہ بن چکا ہے جس کو جو جتنی فنڈنگ کرتا ہے وہ اسی کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے،بھارت عصمت دری کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے،بھارت مقبوضہ کشمیر میں ماورایے عدالت قتل عام میں ملوث ہے،مقبوضہ کشمیر میں پیلٹ گن کے استعمال سے بچوں کی بینائی محروم ہونے پر بھی مغرب میں قبرستان سی خاموشی ہے ، بھارت کشمیر میں ممکنہ رائے شماری کا فیصلہ اپنے حق میں نکالنے کے لیے مقوبوضہ کشمیر کی ڈیموگرافی تبدیل کر رہا ہے ان خیالات کااظہار انہوں نے جمعہ کو یہاں ایک مقامی ہوٹل میں سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے بلائے گئے انٹرنیشنل پارلیمینٹری کشمیر سیمینار سے خطاب کر تے ہوئے کیا،سیمینار سے وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر، رکن اسمبلی سردار اویس خان لغاری سمیت دیگر نے بھی خطاب کیا،چئیرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی کہانی ایسی کہانی ہے جس کے کیی زاوے پوشیدہ ہیں۔وہاں ہونے والے جرایم دنیا کی نگاہوں سے اوجھل ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں پیلٹ گن کے استعمال سے بچوں کی بینائی محروم ہونے پر بھی مغرب میں قبرستان سی خاموشی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض افواج معصوم کشمیریوں کو ان کے حقوق سے محروم کر رہی ہیں۔1947 سے مقبوضہ کشمیر تضادات کا شکار ہے۔1947 میں بھارت نے جوبا گڑھ پر اکثریتی آبادی کے ہندو ہونے کی بنا پقبضہ کیا۔دوسری جانب بھارت نے اپنے اسی اصول کی نفی کشمیر میں کی۔تاہم اس معاملے پر دنیا اور اقوام متحدہ خاموش رہے۔بھارت عصمت دری کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔بھارت مقبوضہ کشمیر میں ماورایے عدالت قتل عام میں ملوث ہے۔اقوام متحدہ مغربی , امریکی امپیریل ازم پر رقص کرنے پر مجبور ہے۔وہ ایک ایسا ادارہ بن چکا ہے جس کو جو جتنی فنڈنگ کرتا ہے وہ اسی کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔اقوام متحدہ عراق پر نہ صرف قرارداد پیش کر کہ اس پر عملدرآمدکرا سکتا ہے۔تاہم وہ کشمیر پر منظور شدہ قراردادوں ہر عمل درآمد نہیں کرا سکتا۔جو ادارہ ہمارے حقوق کا تحفظ نہ کر سکے ہمارا ایسے ادارے سے کیا تعلق۔جب بھی کسی مسلم ممالک کا مسیلہ ہوتا ہے پاکستان آگے بڑھتا ہے۔دوسری جانب او آئی سی کہتی ہے کہ یہ پاکستان اور بھارت کا باہمی مسلہ ہے۔ہم وہ تکالیف نہیں سمجھ سکتے جو مقبوضہ کشمیر کے عوا.م برداشت کر رہے ہیں کیونکہ ہم ان سے بچے ہویے ہیں۔ہمیں اپنے آپ پر دوبارہ نظر ثانی کی ضرورت ہے۔اب اس جدوجہد کا بیڑہ پاکستان کی جانب سے پاکستان کی پارلیمان کو اٹھانا چاہیے۔اسپیکرز کے مسیلے کے اوپر اس معاملے کو اجاگر کرنا چاہیے۔انسانی حقوق کمیٹی کو دیگر ممالک کی پارلیمان کے اندر وہاں کی انسانی حقوق کمیٹیوں کو کشمیر میں مظالم پر اعتماد میں لیں۔میاں رضا ربانی نے کہا کہ ابھی تک ہم دنیا کو مسیلہ کشمیر کو پاک بھارے باہمی تنازعہ کے طور پر باور کروا سکے ہیں۔ہمکں بتانا ہو گا کہ یہ ایک بین الاقوامی مسلہ ہے جس کی گہری جڑیں ہیں۔ہمیں باور کروانا ہے کہ بھارت ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت مقبوضہ کشمیر کی جغرافیائی ڈیموگرافی کو تبدیل کر رہا ہے۔بھارت کا مقصد ہے کہ اگر کبھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے زریعہ استصواب رایے ہو سکے تو وہ اس پر اثر انداز ہو سکے۔ہمیں چاہیے کہ کشمیر اور فلسطین کی تحاریک کو اکٹھا رکھا جایے۔فلسطین کی انتفادہ اور کشمیر کی انتفادہ کو اکٹھے رکھنا ہو گا۔مقبوضہ کشمیر پر ملک بھر میں ایک دستخطی مہم کے آغاز کی ضرورت ہے۔اگر ضرورت پڑے تو اس ضمن میں ہم مدد فراہم کر سکتے ہیں۔گزشتہ 150روزسے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے اور مغربی اس پر ایک خاموش تماشائک کا کردار ادا کر رہا ہے۔کیا ایشیائی چے اور ایشیائی خون ایک گوری. لی سے بھی بدتر ہیں۔کیا بی بی سی اور سی این این کو مقبوضہ کشمیر میں کھیلی جانے والی کشت و خون کی ہولی نظر نہیں آ رہی۔اگر ان کے ضمیر سویے ہویے ہیں تو ان کے ضمیروں کو جگانا ہو گا ۔انسانی حقوق تنظیمیں بھی مقبوضہ کشمیر پر بہری ہو چکی ہیں۔وزیر اعظم آزادکشمیرراجہ فاروق حیدر نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ2008, 2009اور 2016میں کشمیریوں کی تین بڑی حالیہ تحاریک شروع ہوئیں۔2016 میں مقبوضہ کشمیر میں ایک ڈرامائی تبدیلی نمایاں ہوئی۔چھ ماہ گزرنے کے بعد بھی یہ تحریک ابھی تک جاری ہے۔بھارتی حکومت کہتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں 170عسکریت پسند فعال ہیں۔میں پوچھتا ہوں کہ کیا 6 لاکھ بھارتی افواج صرف 170 عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لیے ہے۔سارک کی ناکامی بھی کشمیر سے منسلک ہے۔بھارت نے کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے سارک کو سبوتاژ کیا۔پاکستان کے بھارت کے مقابلے کے کیے غیر روایتی ہتھیار ضروری ہیں۔جنوبی ایشیا میں امن کے قیام کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ہونا ضروری ہے۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے چیرٗمین اور رکن اسمبلی سردار اویس خان لغاری نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ یہ بات حقایق کے منافی ہے کہ ہم کسی ریاست سے کشمیر کی قراردادوں پر حمایت حاصل نہیں کر سکے۔چند ممالک کشمیر پر حمایت کی بجایے بھارت سے اپنے تعلقات کو فوقیت دیتے ہیں۔ترکی،آزربائجان اور دگر ممالک نے کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی حمایت کی۔ ہم نے واضح طور پر آگاہ کیا کہ ہمیں بھارت سے طے شدہ مسایل پر بات کرنا چاہیے۔بھارت سے مزاکرات نتیجہ خیز ہونے چاہیں۔مزاکرات کا پہلا عنصر باہمی اعتماد کی بحالی ہے۔ہم امن کی خواہش رکھتے ہیں تاہم ہم اس کے لیے ترسے ہویے نہیں ہیں۔ہم پاک چین اقتصادی راہداری کا حصہ ہیں اور دنیا میں تنہا نہیں ہیں۔پاکستان دنیا کی دہشت گردی سے نمٹنے میں کامیاب تجربہ رکھنے والی طاقتوں میں شامل ہے۔