’ میں نے چھ سال کی عمر میں ہی لڑکوں سے چھیڑ چھاڑ شروع کردی تھی‘‎‎

’ میں نے چھ سال کی عمر میں ہی لڑکوں سے چھیڑ چھاڑ شروع کردی تھی‘‎‎
’ میں نے چھ سال کی عمر میں ہی لڑکوں سے چھیڑ چھاڑ شروع کردی تھی‘‎‎

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لندن(مانیٹرنگ ڈیسک)برطانیہ کی شرلے لیچ (Shirley Leach)نامی ایک نن(عیسائی راہبہ، جو مذہب کے لیے دنیا تج دیتی ہے)نے اپنی سوانح عمری لکھی ہے، جس میں ایک کھلنڈری اور دل پھینک لڑکی سے نن بننے تک کے سفر کی ایسی تفصیلات لکھی ہیں کہ دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ میل آن لائن کی رپورٹ کے مطابق شرلے لیچ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ”میں 1930ءکی دہائی کے آخر میں ایک امیر گھرانے میں پیدائش ہوئی۔ ہمارا گھر 43ایکڑ پر محیط تھا جس میں 23بیڈروم اور ایک ٹینس کورٹ بھی تھا۔ گھر کے پاس ہی ہمارا ایک اصطبل بھی تھا۔ ہمارے درجنوں نوکر چاکر تھے جو ہمہ وقت ہماری خدمت پر مامور رہتے۔ میں کبھی بھی مذہبی لڑکی نہیں رہی تھی۔ بچپن سے ہی میں بہت شرارتی تھی۔“


شرلے لیچ نے مزید لکھا ہے کہ” رومانویت میرے مزاج کا خاصا تھی اور میں نے 6سال کی عمر میں ہی لڑکوں کے ساتھ فلرٹ کرنا شروع کر دیا تھا۔ پہلی بار مجھے اپنے اصطبل میں کام کرنے والے ایک لڑکے سے پیار ہوا، جس کا نام رچرڈز تھا۔ جب بھی وہ اصطبل کی صفائی میں مصروف ہوتا، میں اس سے فلرٹ شروع کر دیتی تھی۔ میں اسے اپنے ’پونی‘ (چھوٹی نسل کا ایک گھوڑا) پر زین ڈالنے کو کہہ دیتی۔ یہ سب میں محض اس سے فلرٹ کرنے کے لیے کرتی تھی۔ کچھ روز بعد وہ کہیں چلا گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران میری رومانویت میں مزید اضافہ ہو گیا تھا، حالانکہ ان دنوں ہر طرف خوف و ہراس پھیلا ہوتا تھا۔ جنگ کے دوران ہی لندن رائفل بریگیڈ کے بریگیڈیئر ٹمی فیئرفیکس روز اور ان کے سینکڑوں جوان ہمارے اس جاگیر میں آ گئے اور یہاں مورچے بنا لیے، کیونکہ لندن پر کسی بھی وقت حملے کا خطرہ تھا۔ اب میں ان فوجی جوانوں کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرتی تھی اور رات کے وقت گھوڑا ان کے خیموں کے گرد دوڑانا شروع کر دیتی۔ اس دوران دوسری بار مجھے بریگیڈیئر ٹمی کے خانساماں سے پیار ہو گیا۔ ہم نے کافی دن اکٹھے گزارے۔ اکثر ہم فضائی جنگ دیکھنے کے لیے گھر کی چھت پر بھی چلے جاتے تھے۔“


شرلے مزید لکھتی ہے کہ ”کئی لڑکوں سے فلرٹ کرنے کے بعد مجھے جیرمی سے پیار ہوا اور جب اس نے مجھے شادی کی پیشکش کی تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا تھا۔ ہماری منگنی ہو گئی اور میں شادی کی تیاریوں میں لگ گئی تھی۔ ایک روز میں نے بازار سے گزرتے ہوئے ڈائننگ روم کی کچھ کرسیاں دیکھیں۔ مجھے لگا کہ شادی کے بعد ہمیں ان کرسیوں کی اشد ضرورت ہو گی۔ چنانچہ میں نے ان کرسیوں کی خریداری کے حوالے سے جیرمی کو خط لکھنے کا سوچا۔ یہ 1952ءکا واقعہ ہے۔ میں جیرمی سے بہت محبت کرتی تھی اور شادی کے دن کا بے صبری سے انتظار کر رہی تھی، جس میں چند ہفتے باقی تھے۔ میں جلد شادی کرکے ماں بننا چاہتی تھی۔ خط میں جیرمی کو میں نے لکھا کہ کیا مجھے ان کرسیوں کی بولی میں شریک ہونا چاہیے؟“یہ لکھ کر میں سوچنے لگی کہ اور کیا لکھوں۔

اسی دوران ایک معجزہ ہوا، میرے قلم نے ازخود کاغذ پر چلنا شروع کر دیا، مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے مجھے میرے ہاتھ پر اختیار نہیں رہا، میرا بازو بے قابو ہو چکا تھا، جب قلم تھما تو میں نے دیکھا کہ کاغذ پر لکھا تھا ”لیکن بظاہر ان کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ میں نن بننے والی ہوں۔“جب میرا ہاتھ رکا تو میں کاغذ پر یہ فقرہ دیکھ کر دہشت زدہ ہو گئی، لفظوں کی سیاہی تاحال گیلی تھی۔ اس فقرے میں پوشیدہ پیغام کچھ زیادہ مبہم نہیں تھا، اگرچہ میرے ذہن میں ایسا کبھی خیال بھی نہیں آیا تھا۔ اسی ایک لمحے میں سب کچھ بدل گیا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں نے اپنا دھوپ کا سیاہ چشمہ اتار دیا ہو اور ہر چیز کو پہلی بار تیز دھوپ میں دیکھ رہی ہوں۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اب میں جیرمی سے کبھی شادی نہیں کروں گی، کبھی پیار نہیں کروں گی، کبھی ماں نہیں بنوں گی۔میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی کے ان لمحات میں مجھے سب کچھ تیاگ دینے کا حکم دے دیا گیا تھا۔ میں ٹوٹ کر بکھر گئی اور رونے لگی۔ میں اتنا روئی کہ میری آنکھیں سوج گئی، اتنی کہ مجھے مشکل سے کچھ نظر آرہا تھا۔ اور پھر میں نے یہ خط جیرمی کو ارسال کر دیا۔“

مزید :

ڈیلی بائیٹس -