انتشار، عناد، حسد، بدامنی کی سیاست، غیر قانونی عادت
خالقِ کائنات کے بنائے ہوئے وسیع و عریض نظام کے تحت نیا سال 2018ء شروع ہو گیا ہے۔
رواں سال جون میں موجودہ جمہوری حکومت کی آئینی مدت، ختم ہونے کے چند ہفتوں کے بعد، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کا انعقاد عمل میں آ سکتا ہے۔
اگر آئندہ چند ماہ میں، کسی وجہ سے کوئی غیر آئینی ، غیر جمہوری اور غیر معمولی منفی واقعہ رونما نہ ہوا تو امید واثق ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے زیرانتظام، انتخابی عمل کا اہم مرحلہ سرانجام دیا جا سکتا ہے۔
آئینی تقاضوں اور جمہوری اصولوں پر یقین و اعتماد رکھنے والے رہنماؤں اور اداروں کو ہمہ وقت خلوص نیت سے یاد رکھنا ہوگا کہ ملکی سیاست اور نظم و نسق کے تسلسل کی گاڑی پٹڑی پر رواں دواں رکھنے کی خاطر ملک بھر میں امن و امان، قائم اور مستحکم رکھنے کی آج کل زیادہ ضرورت ہے۔
اس مثبت مقصد کے حصول کے لئے موجودہ حکمران طبقوں، سرکاری حکام، اپوزیشن کے رہنماؤں اور عام لوگوں کی بھی یہ قومی ذمہ داری ہے کہ ملکی وقار و احترام اور تعمیر و ترقی کی خاطر، اپنے متعلقہ شعبوں، علاقوں اور مقررہ اوقات کے دوران، یہاں عوام کے منتخب نمائندوں کی مطلوبہ تعداد کی رضامندی اور منظوری سے نافذ اور رائج، آئین پاکستان 1973ء اور متعلقہ انتخابی قوانین کے تحت عام انتخابات کے عملی انعقاد کے لئے بھرپور تعاون اور صلاحیتیں بروئے کار لائی جائیں کہ پوری خوش اسلوبی سے ادا کی جانے والی کارکردگی سے بلاشبہ یہاں عوام کے صحیح نمائندے منتخب ہو سکتے ہیں، تاہم بعض لوگ بدنیتی، حسد، فرقہ واریت، خودغرضی، علاقائی تعصب اور محض مخالفت برائے مخالفت کی بنیاد پر، بعض غیر قانونی اور غیر جمہوری رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لئے بیانات تسلسل سے دے رہے ہیں۔
کئی سیاسی جماعتوں کے امیدوار عام انتخابات کے منصفانہ انعقاد میں تو کامیاب ہو کر حصولِ اقتدار کے لئے، مطلوبہ اکثریتی ووٹوں کی حمایت سے کم از کم نصف سے زائد اسمبلی نشستیں جیتنے کی اہلیت اورمقبولیت نہیں رکھتے، اس لئے وہ نہیں چاہتے کہ آئندہ انتخابات، بروقت ہوں اور پھر ان میں مسلم لیگ(ن) کے امیدوار دوبارہ اکثریتی نشستیں حاصل کرکے برسراقتدار آ جائیں۔
یہ ثبوت تو گزشتہ چند سال کی موجودہ وفاقی اور پنجاب حکومت کی بہتر کارکردگی سے بیشتر غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کی مسلسل زبانی آراء اور تحریری کاوشوں سے واضح ہو رہا ہے، جبکہ بعض مخالف سیاسی رہنما ایک تو بالکل مجوزہ عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے ہی خلاف ہیں اور دوسرے وہ یہاں موجودہ اسمبلیوں کو تحلیل کرکے کوئی عبوری قومی یا ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام کا مسلسل مطالبہ کرتے رہتے ہیں، حالانکہ آئین میں ایسا کوئی لائحہ عمل اور سیاسی طریقہ موجود نہیں ، لہٰذا مندرجہ بالا خواہش پر عمل درآمد کے امکانات نہیں ہیں۔ایوان بالا یعنی سینیٹ کے انتخابات ،رواں سال، مارچ 2018ء میں کرانا مقرر ہیں۔
یہ ملک کا سب سے بڑا قانون ساز ادارہ ہے۔ کسی آئینی اور قانونی ضرورت کے لئے اس ادارے کے محترم اراکین کی دوتہائی یا سادہ اکثریتی اراکین کی حمایت لازمی ہے۔ نیز یہ ایک مستقل ادارہ ہے۔ اس کے نصف اراکین عرصہ تین سال بعد منتخب کئے جاتے ہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ بعض بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما، سینیٹ کے ادارے کو غیر آئینی طور پر محض اس لئے جلد تحلیل کرانا چاہتے ہیں کہ مارچ 2018ء میں اس ادارے میں ان کے حامی اراکین کی بیشتر تعداد اپنی آئینی مدت پوری کرکے ریٹائر ہو جائے گی اور اس ادارے میں مسلم لیگ ن کے حامی اراکین کی تعداد موجودہ اسمبلیوں کی نشستوں کے تناسب سے بڑھ جائے گی، ایسی تبدیلی، آئین میں درج طریقہ کار کے عین مطابق ہی وقوع پذیر ہو سکے گی۔
یہ امر افسوس ناک ہے کہ سینیٹ میں اکثریتی اراکین کی تبدیلی پر دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین کو کوئی اعتراض یا پریشانی لاحق کیوں ہے؟ کیا سینیٹ میں موجود دیگر جماعتوں کے حامی اراکین کی کارکردگی کو مسلم لیگ (ن) کی قیادت آج تک تسلیم نہیں کر رہی؟ اس روش سے صاف عیاں ہے کہ آئینی کارکردگی کی صحیح عمل داری سے کھلا انکار اور واضح انحراف کیا جا رہا ہے۔
ایسا طرزِ عمل، صریحاً قابل مذمت ہے۔ اس رویے کے ذمہ دار سیاست کاروں کا یہ مطالبہ کسی انصاف پسند ادارے اور عدالت میں ہرگز درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
وطن عزیز میں بعض ناکام سیاست کار ایسے بھی ہیں جو عدالتی امور کو احتجاجی دھرنوں کے ذریعے سڑکوں، چوراہوں اور راستوں کو عام لوگوں کی آمد و رفت کے لئے بند کرکے اپنی ضد اور مرضی کے مطالبات منوانے کے لئے حکومت پر آئے روز دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، حالانکہ یہ رجحان سراسر سیاسی بلیک میلنگ کی عکاسی کرتا ہے،جبکہ عوام کی غالب اکثریت ان رویوں کے خلاف ہے۔
ہر مہذب ملک میں پولیس سیکیورٹی فورسز، امن و امان اور قانونی احکامات کے عملی نفاذ کے لئے حکومتی اداروں کے لئے کام کرتی ہیں۔ اگر یہاں کوئی سرپھرے اور قانون شکن افراد حکومت کے لئے خطرات پیدا کریں تو کیا پولیس ان کو روکنے کے لئے کارروائی نہیں کرے گی؟
لاہور میں ایک سو سے زائد کالج اور یونیورسٹیاں قائم ہیں جن میں سے بیشتر پرائیویٹ ہیں۔
ہر ادارے میں سینکڑوں یا ہزاروں طالب علم حصولِ تعلیم کے لئے کوشاں ہیں، لیکن بدقسمتی سے بعض لوگ ان نونہالوں کو اپنے مخصوص سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر حکومت کے خلاف غیر قانونی کارروائیوں کی خاطر استعمال کرنے لگے ہیں۔
یہ رجحان سراسر غیر قانونی اور تعلیم و تدریس کے عمل کے منافی ہے۔ ایسے اداروں کے مالکان کو، طلبہ کی تعلیم کو، بلا کسی رکاوٹ اور مداخلت کے جاری رکھنے کے اقدامات پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پرائیویٹ اداروں کے مالکان اپنے ذاتی مفادات اور تنازعات میں طلبہ کو ملوث اور استعمال کئے بغیر اپنے معاملات اور جھگڑے بذات خود نمٹائیں یا بذریعہ قانونی ذرائع طے کریں۔
اب عام انتخابات کی مہم تیز اور موثر ہو رہی ہے، مگر اس میں جھوٹ بولنے، بدتمیزی ،بدزبانی کرنے اور حریف قائدین اور کارکنوں کے خلاف توہین اور تضحیک آمیز رویہ اختیار کرنے کی ،کسی کو آزادی اور الیکشن کمیشن کی جانب سے اجازت نہیں۔
ایسے غیر قانونی حربوں سے کئی علاقوں اور انتخابی حلقوں میں کارکنوں کے درمیان تلخ کلامی اور اشتعال انگیز بیانات سے لڑائی جھگڑوں کے واقعات رونما ہونے سے لوگوں کے امن و سکون میں خلل پیدا ہوتا ہے، اگر کسی امیدوار نے الیکشن میں حصہ لینا ہے تو اسے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے حلقے کے لوگوں، آمد و رفت میں رکاوٹیں ڈالے یا وہاں شور شرابہ سے دوچار کرنے کی صورت حال پیدا کردے۔
کارنر میٹنگز، لاؤڈ سپیکر کے استعمال کے بغیر کی جائیں۔ وہاں نعرے بازی بھی محدود رکھی جائے۔ اگر کسی مخالف امیدوار یا کارکن کو جسمانی تشدد یا ذہنی کوفت و اذیت سے دوچار کیا جائے تو بلاشبہ وہاں جلد یا بدیر، مخالف یا مخاطب ہدف بنائے گئے افراد، اپنا ردعمل ظاہر کر سکتے ہیں، جو ماحول میں ’’کشیدگی اور محاذ آرائی‘‘ کے ساتھ ساتھ طویل لڑائی جھگڑوں کا سبب بن جاتی ہے۔