2017ء۔۔۔ سرخرو کون ہوا
ایک اور سال گزر گیا ، مارشل لاء کی راہ دیکھنے اور پیش گوئیاں کرنے والے تلملاتے رہ گئے۔ یقیناًیہ روحیں ان دنوں زخمی سانپوں جیسی ہیں ، ان کے غبارے سے ہَوا اسی دن نکل چکی تھی جب چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سینیٹ میں جمہوریت کی کھلے عام حمایت کی تھی لیکن ان کے خوابوں کو بھرپور چکنا چور 2017ء کے ڈوبتے سورج کی آخری کرنوں نے کیا۔ بقول شاعر :
جب شام ڈھلی، تم یاد آئے
یقیناًنیوز چینلز پر اودھم مچانے والے مارشل لاء کے ان عاشقوں کو اپنی خواہشات اور پیش گوئیاں دسمبر کی آخری شام کے وقت بہت یادآئی ہونگی اور ان کا ’’ہجر‘‘ دیدنی ہوگا ۔۔۔ اور تو اور ان کے گھر والے بھی ان کی بے بسی پر ہنس کر کہہ رہے ہونگے۔
’’جعلی عاملو! سیاست چھوڑ دو۔‘‘ نجانے کیوں ہمیں اس وقت شدید ہنسی آجاتی ہے جب رانا ثناء اللہ لال حویلی والے شیخ رشید کو شیطان اور عمران خان کو پاگل خان کہہ کر یاد کرتے ہیں ، ہم پل بھر میں لائل پور یعنی موجودہ فیصل آباد کے کلچر میں کھو جاتے ہیں جہاں ہر بندہ دوسرے انسان سے گفتگو ’’جگتیں ‘‘ مار مار کے کرتا ہے اور ہم مسکراتے ہوئے سوچتے ہیں کہ بے شک رانا ثناء اللہ نے لائل پور کا پانی پیا ہوا ہے۔
خیر چھوڑیے ! ہم 2017ء کا تذکرہ کرنا چاہ رہے ہیں جس میں میاں نوازشریف نا اہل ہوکر بھی سب سے کامیاب اور پاپولر ترین لیڈر ثابت ہوئے اور عدالتوں سے ’’ پاک‘‘ ہونے والوں کے ناپاک ارادے کامیابی کو چھو بھی نہ سکے ۔
یہ وہی 2017ء تھا جس میں ہمارے کپتان بار بار عدالتوں میں بیان بدلتے ہوئے قوم کو عدالتوں کا احترام سکھاتے رہے ، خود الیکشن کمیشن میں پیش ہونے سے بھاگتے رہے جبکہ دوسری جانب میاں نوازشریف کے ایک ایک بیرونی دورہ پر ’’بھاگ گیا ، بھاگ گیا ‘‘ کی گردان کرتے رہے ، یہ وہی 2017ء تھا جس میں میاں نوازشریف اور شہباز شریف نے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کر دکھایا ، سی پیک کو متعارف کرایا، دہشتگردی کی کمر توڑی ، 10 ہزار سے زائد سڑکوں کا جال بچھایا اور ایک ایسی واٹس اپ کال بھی پکڑی جس نے ’’حق و انصاف‘‘ کا خوب ’’بول بالا ‘‘ کیا ۔
یقیناًایسی بہت سی کالز ہماری تاریخ کو تاریک کرنے میں بارہا کردار ادا کرتی رہی ہیں اور ہم مارشل لاؤں اور محلاتی سازشوں کی بھینٹ چڑھتے رہے ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ یہ سلسلہ رکتا نظر نہیں آتا ۔
شیخ رشید صاحب اب بھی کہہ رہے ہیں کہ اسمبلیوں سے استعفٰے دے کر سب سڑکوں پر آجاؤ۔ یعنی جو بچا ہے ، وہ بھی لٹا دو ۔حیرت اس بات پر ہے کہ اپوزیشن کے جغادری صرف پانچ مہینے صبر کیوں نہیں کر رہے ، جنرل الیکشن کی باری کیوں نہیں آنے دے رہے ؟ کون ان کی ڈوریاں ہلا رہا ہے ، کون انہیں ہنگاموں ، استعفوں ، دھرنوں اور بربادیوں پر اکسا رہا ہے۔
کیوں آئین ، قانون ، پارلیمان کا تقدس پامال کرکے نئے الیکشن کی جلدی ہے۔ بے شک یہ سب نئے الیکشن کی جلدی والا معاملہ نہیں بلکہ پارلیمنٹ کے ماتھے پر پرانا داغ نئے انداز میں لگانے کی کوشش ہے تاکہ ہر کوئی کہتا پھرے کہ ’’ ہمارے ہاں کوئی بھی اسمبلی اپنی مدت پوری کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
بابائے سنگا پور ’’ لی کو آن یو ‘‘ کا کہنا ہے کہ ’’پوری دنیا میں ایسا کوئی ملک نہیں جس نے فوج کے زیرِ اثر رہ کر ترقی کی ہو ،فوجی اور سیاستدان کی سوچ میں بڑا فرق ہوتا ہے ، فوجی مسئلہ پیدا کرتا ہے اور سیاستدان مسئلہ حل کرتا ہے ،سیاستدان جیو اور جینے دو کے فلسفے پر کاربند ہوتا ہے جبکہ افواج کو یہ تربیت نہیں دی جاتی ،سیاستدان کو صلح ، مذاکرات اور نرمی کا درس ملتا ہے جبکہ عسکری تربیت میں اور فلسفہ شامل ہوتا ہے ۔
‘‘ شکر کہ اس وقت ہماری افواج صلح جو اور امن پسند ہیں ، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سینیٹ میں جس جمہوریت پسندی کا ثبوت دیا ہے اس کی مثال بہت کم ملتی ہے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ شعبدہ باز سیاستدانوں کو ان کی ڈگر سے ہٹایا جائے ، میڈیا اپنا خاص کردار ادا کرے اور ایسے سیاستدانوں کو لمبی چوڑی کوریج نہ دے جو جمہوریت کے خلاف نظریات کے حامل ہیں ، خالص صحافی اینکر پرسنز کی بھی ذمہ داری ہے کہ جمہوریت کے خلاف فتنہ سازی کرنے والے سیاستدانوں کو اپنے ٹالک شوز میں بلانے سے اجتناب کریں تاکہ جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوں اور اسمبلی اپنی باقی پانچ ماہ کی مدت پوری کر سکے ۔
بے شک 2017 ء نے روڑے اٹکانے والوں کو نظر انداز کرکے جمہوریت کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کیا، گزرے سال کا ایک ایک دن گواہ ہے کہ سازشیوں نے ہر وہ چال چلی جس سے ساری بساط لپیٹی جا سکتی تھی ، لیکن اس پورے سال کا شکریہ کہ اس نے کسی بھی لمحہ جمہوری اداروں کو ڈگمگانے نہیں دیا ،یہ 2017ء کا ہی اعزاز ہے کہ میاں نوازشریف نااہل ہونے کے باوجود عوام کی نظروں میں اہل رہے ، لاہور کے حلقہ این اے 120نے ثابت کر دیا کہ جمہوریت کا پلڑا کل بھی بھاری تھا اور آج بھی ہے ،نوازشریف کل بھی ان کے لیڈر تھے اور آج بھی ہیں ، یقیناً2017ء کے اعزازات کو 2018ء بھی برقرار رکھے گا ،الیکشن اپنے وقت پر ہونگے ، شیخ رشید یا عمران خان کی کسی بھی جلد بازی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے وقت اپنے فیصلے خود کرے گا اور سرخرو ہوگا ،ضرورت اس امر کی ہے کہ میچور اور باہمت سیاستدان ، صحافی اور دانشور اس وقت کا ساتھ دیں ، نئے سال کو جمہوری عزم سے ویلکم کہیں اور ایسی کسی بھی غیر ذمہ داری کا ثبوت نہ دیں جس کی بدولت وقت ان سے گلہ کرے کہ ’’ اف ! یہ آپ نے کیا کر دیا ؟ بنے بنائے کھیل کو بگاڑ دیا ‘‘۔۔۔ آخر میں تمام اہلِ وطن کو نیا سال بہت بہت مبارک، چلتے رہو۔۔۔جمہوریت کے ساتھ۔