پردے میں رہنے دو!
’’ پردے میں رہنے دو پردہ نہ اٹھاؤ،‘‘ پردہ جو اٹھ گیا تو بھید کھل جائے گا‘‘ ایسی ہی کچھ کیفیت آج کل ہمارے سیاسی ماحول کی ہے کہ یہاں راز کھولنے کا اعلان کیا جا رہا ہے تو جوابی طور پر یہ مطالبہ ہو رہا ہے ، چلیں کہہ ہی دیں جو کہنا ہے۔
سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف وزارت عظمیٰ سے علیحدگی اور سیاست میں اپنی نا اہلی سے بہت نالاں اور برہم ہیں، اب تو وہ ایسے انداز سے حملے کر رہے ہیں کہ صاف واضح ہو جاتا ہے وہ کیا کہنا چاہتے ہیں اس کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ اگر پس پردہ سازشیں نہ رکیں تو وہ سارے راز کھول دیں گے، اس کے جواب میں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے کہا کہ بتا دیں جو بتانا ہے۔ اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
اور اب قبلہ ڈاکٹر طاہر القادری بھی میدان میں آگئے ہیں وہ کہتے ہیں میاں صاحب راز کھولیں۔ میرے پاس بھی ان کے بہت راز ہیں یوں قبلہ نے ایک نئی دھمکی دی ہے، اگرچہ حقیقی معنوں میں یہ بالکل نئی نہیں، محترم پہلے بھی رازوں سے پردہ اٹھانے کی بات کر چکے ہوئے ہیں لیکن جو اب تک کہا وہ کسی راز کے زمرے میں نہیں آتا۔
اگرچہ شریف خاندان ڈاکٹر طاہر القادری اور ڈاکٹر طاہر القادری شریف خاندان کے بارے میں ایسا کہیں تو لوگ چونک اٹھتے ہیں۔ کیونکہ یہ کوئی راز نہیں کہ مولانا طاہر القادری نے اپنا یہ سفر اتفاق مسجد ماڈل ٹاؤن ہی سے شروع کیا تھا۔
شریف خاندان کے سربراہ میاں محمد شریف (مرحوم) ان کو مسجد میں خطابت کے لئے لائے اور انہوں نے وہاں اپنا سکہ جمایا ان دنوں نواز اور شہباز شریف سبھی ان کے مداح تھے اور یہ سب اکٹھے کھانا بھی کھاتے اور ایک دوسرے کو سالن بھی پیش کیا کرتے تھے، تعلقات بڑے اچھے تھے، ایسے ہی گہرے دوستانہ مراسم تھے تو ادارہ منہاج القرآن کے لئے سرکاری طور پر زمین الاٹ کی گئی جہاں آج ایک بڑا ادارہ کام کر رہا ہے۔
یہ تعلقات کب خراب ہوئے کیوں ہوئے اس پر بھی بہت کچھ کہا جا چکا اب دہرانا بے کار ہے تاہم ان دیرینہ تعلقات کے حوالے سے کوئی راز کی بات ہے تو پھر دونوں جانیں جب یہ کھلیں گے تو پتہ چلے گا ویسے لوگ تو کہتے ہیں ’’پردے میں رہنے دو‘‘
دوسری طرف یہ معاملہ کپتان کے ساتھ بھی ہے۔ جو راز کھولنے کا مطالبہ کرتے اور اپنی طرف سے مبینہ کرپشن کے نئے نئے الزام لگائے جا رہے ہیں حالانکہ وہ خود امپائر کی انگلی کی بات کرتے ہیں تو جواباً کہا جاتا ہے اب یہ انگلی نہیں اٹھے گی اور پھر امپائر کی بھی توضیح کر دی جاتی ہے۔
بلکہ ایک مرحلے پر تو سابق ڈائریکٹر جنرل کا اسم گرامی بھی لے لیا گیا تھا۔ کپتان امپائر کی انگلی والی بات تو کرتے ہیں لیکن جب امپائر کا ذکر مسلم لیگ (ن) والے کرتے ہیں اس کو تسلیم نہیں کرتے، اب سابق صدر مملکت اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی میدان میں کود پڑے اور راز کھولنے پر زور ے رہے ہیں۔ حالانکہ جو کچھ بھی ہے وہ کھلا راز ہے۔
سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف نام لیں یا نہ لیں وہ جس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کیا یہی جرم ہے کہ بیٹے کی فرم سے تنخواہ نہیں لی ا ور پھر سازش کی بات کرتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ وہ کس طرف اشارہ کر رہے ہیں، اسی حوالے سے تو ان کے مخالف کہتے ہیں کہ میاں صاحب دو اداروں پر الزام لگا رہے ہیں اب یہ جو آصف علی زرداری ہیں تو انہوں نے نئی بات کہی وہ کہتے ہیں۔
ہمیشہ پیپلزپارٹی کا مینڈیٹ چرایا گیا۔ کبھی پنجاب اور کبھی سندھ میں، لیکن اب وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے وہ پوچھتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کو مینڈیٹ کیسے ملا اور کون لے کر دیتا رہا؟
اب ہم جو رپورٹر ہیں اور ساری عمر اسی دشت میں گزار چکے ہیں۔ ہمیں بخوبی علم ہے اورسب لوگ بھی جانتے ہیں ،اب تو کتابیں بھی لکھی جا چکیں ان میں آئی جے آئی بننے کی تفصیل موجود ہے جبکہ جنرل حمید گل (مرحوم) خود اقبال کر چکے ہیں کہ ایسا کیا گیا پیپلزپارٹی تو ہمیشہ دھاندلی کے الزام لگاتی رہی ہے۔ بلکہ ایک انتخابی مہم میں تو محترمہ بے نظیر بھٹو (شہید) نے ’’کمپیوٹرائیزڈ رگنگ‘‘ کا الزام بھی لگایا تھا۔
انتخابی مہم کے دوران ہی انہوں نے اپنے خطاب میں یہ کہا کہ عوام ہمارے ساتھ ہیں لیکن یہاں کمپیوٹرائزڈ رگنگ کا منصوبہ بن چکا اور دھاندلی ہو گی چنانچہ انہوں نے اس پر مہم بھی چلائی تھی۔ لیکن اب تو خود محمد نوازشریف کہہ رہے ہیں۔
جہاں تک ہمارے صحافتی پیشہ ورانہ دور کا تعلق ہے تو آج تک دھاندلی ہی سنتے آئے اور یہ الزام تواتر سے لگتا ہے کسی کو شکست قبول کرنا تو آتا ہی نہیں یوں بھی دھاندلی کے نت نئے طریقے ایجاد ہو چکے ہیں۔
ایک دور جعلی شناختی کارڈوں کا تھا۔ پرانے شناختی کارڈ ہوتے تھے تو ہمارے یہاں کئی امیدواروں نے تو گھر پر شناختی کارڈ بنانے کی مشین لگالی تھی اور کچھ حضرات نے سیدھے سبھاؤ اپنے پختہ کارکنوں کی مخصوص تعداد کے سات سات، آٹھ، آٹھ شناختی کارڈ بنوا لئے تھے۔
ہم نے ماضی (80 کی دہائی) کے ایک الیکشن میں ایک ایسی کوچ دریافت کی جس میں قریباً پندرہ خواتین تھیں یہ ایک پولنگ سٹیشن پر گئیں۔ وہاں ووٹ ڈالے واپس ویگن میں آ گئیں جہاں انمٹ سیاہی صاف کرنے کا اہتمام موجود تھا چنانچہ یہاں سے اگلے پولنگ سٹیش کے لئے روانہ ہو گئیں۔
ان دنوں بتایا گیا تھا کہ انگوٹھے سے انمٹ سیاہی صاف کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ ووٹر انگوٹھے پر سرسوں کا تیل لگا کر جائے تو انمٹ سیاہی صابن سے صاف ہو جاتی ہے۔
لیکن یہاں تو معاملہ بالکل مختلف لگتا ہے کہ سابق وزیر اعظم اب بہت صاف بات کرنے لگے اور عوام ان کی بات کو سمجھنے بھی لگے ہیں، تاہم یہ سوال پھر بھی تشنہ ہی رہے گا کہ سازش کون کر رہا ہے۔ کیونکہ آج تک کسی نے واضح طور پر کوئی موقف اختیار نہیں کیا۔ دھاندلی ہی کا الزام لگایا جاتا ہے۔