پھولوں پر تشدد
چند سال قبل ہمارے محلے میں ایک غریب شخص نے مجھے کہا کہ میرے بیٹے اور ایک ہمسائے کے بچے کو قرآن حفظ کرنے کےلیے کسی مدرسے میں داخل کرا دو ۔۔۔ میں نے نیکی کا کام سمجھ کر حامی بھر لی۔۔۔ دوسرے دن دونوں بچوں کو ساتھ لےکر مقامی مدرسے میں چھوڑنے کےلیے پہنچ گیا۔ میں نے قاری صاحب سے عرض کیا کہ یہ بچے قرآن مجید حفظ کرنا چاہتے ہیں یہ بچے بہت اچھے ہیں شوق سے پڑھیں گے آپ انھیں بڑی شفقت سے پڑھائیے گا ۔۔۔ کچھ دنوں بعد پتہ چلا کہ دونوں بچوں نے روزانہ مارکٹائی اور تشدد کی وجہ سے مدرسہ چھوڑ دیا ہے اور اب کوئی کام کاج سیکھ رہے ہیں۔ مجھے یہ خبر سن کر انتہائی دلی صدمہ ہوا۔۔۔
کل میڈیا پر ایک مدرسے کے استاد کو قرآن حفظ کرنے والے معصوم بچوں پر پائپ کے ساتھ انتہائی بہیمانہ تشدد کرتے ہوئے دکھایا گیا ایسا غیر انسانی سلوک تو کسی جانور کے ساتھ بھی نہیں کرنا چاہیے۔
بچے تو جنت کے پھول ہوتے ہیں ایسی اذیت ناک سزا انسانیت سوز ہے جس کی اسلام اجازت دیتا ہے اور نہ ہی ایسے قرآن حفظ ہوتا ہے ۔۔۔ بلکہ حقیقت یہ ہےکہ قرآن مجید ایک زندہ معجزہ ہےکہ عربی زبان ہونے کے باوجود چھوٹے چھوٹے عجمی بچوں کو بھی آسانی سے دو تین سال میں حفظ ہو جاتا ہے ۔۔۔ دنیا کے کسی مصنف کی کوئی چھوٹی سی کتاب بھی لفظ با لفظ زبانی یاد نہیں ہوسکتی نہ عمر بھر یاد رہ سکتی ہے ۔۔۔ سوال یہ ہےکہ کیا صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے ماریں کھا کر قرآن پاک حفظ کیا تھا۔۔۔؟؟؟ بالکل بھی نہیں اسلام میں ایسے بہیمانہ تشدد کی بالکل بھی اجازت نہیں ۔۔۔آئے روز ٹی وی پر ایسی خبریں سن کر دل خون کے آنسو روتا ہےکہ بچوں کو مار مار کر اپاہج کر دیا جاتا ہے بیڑیاں پہنا کر تشدد کیا جاتا ہے بعض واقعات میں تو پھولوں جیسے نازک بچے جان سے گزر جاتے ہیں ۔۔۔ حیرت اور دکھ ہوتا ہےکہ ہمارے اساتذہ کرام اتنے وحشی کیسے بن گئے ۔۔۔ والدین اتنے سخت دل کیسے ہوتے ہیں جو اسکول اور مدارس میں بچوں کے حالات کی خبر بھی نہیں لیتے۔۔۔ ایسے ظالموں کو ظلم سے منع نہیں کرتے۔۔۔ صرف تربیت اور کنڑول کرنے کےلیے حسبِ ضرورت ڈانٹا یا ہلکا پھلکا مارا جاسکتا ہے ۔۔۔ محبت کی زبان میں تو بڑی تاثیر ہوتی ہے ۔۔۔۔ جو ایک جانور بھی سمجھ لیتا ہے یہ تو پھر بھی انسان کے بچے ہیں ۔۔۔ اسلام سراسر دین رحمت و شفقت ہے ۔۔۔ پیارے آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے تو سرِراہ کھیلتے بچوں سے بھی ہمیشہ پیار فرمایا ہے ان کی دلجوئی فرمائی ہے۔۔۔ حسنین کریمین علیہم السلام کو اپنے مبارک کندھوں پر سوار کیا ہے ۔۔۔ جب کوئی شہزادہ لاڈ میں کھیلتے ہوئے پشت پر سوار ہوا تو میرے کریم آقا ﷺ نے رب کے حضور سجدوں کو طول دیا ہے ۔۔۔
پتہ نہیں موجودہ دور میں ان دین کے ٹھیکیداروں نے کونسا اسلام پڑھ لیا ہےکہ دہشت و انتہاپسندی کی علامت بن گئے ہیں ۔۔۔ طلبہ کو امن و محبت کے پیکر کی بجائے دہشتگرد بنا رہے ہیں۔۔۔
اکثر بڑے مدارس چاہے وہ کسی بھی مسلک کے ہوں پیار سے ہی کام چلتا ہے اور وہاں بہترین نتائج برآمد ہوتے ہیں جبکہ بعض چھوٹے مدارس جو خود ساختہ طور پر قائم ہیں وہاں مار پٹائی کا کلچر زیادہ ہے دراصل جو بچپن میں پٹتا آیا ہے اس نے بچوں کو مارنا ہی ہے یہ انسانی نفسیات کا خاصہ ہےکہ موقع ملنے پر لاشعوری طور خود پر ہوئے ظلم کا انتقام لیتا ہے... آخر اس ظلم کی داستان کو کہیں تو روکنا ہوگا۔ میں خود اسکول و مدرسہ میں ایسے غیر انسانی سلوک اور اذیت ناک تشدد کا چشم دید گواہ ہوں ہمیں معصوم بچوں پر جاری اس وحشیانہ تشدد کی بھرپور مذمت کرنی چاہیے اور حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہےکہ اسکولوں کی طرح مدارس میں بھی "مار نہیں پیار" کی پابندی عائد کرے اور خلاف ورزی کرنے والوں کےخلاف سخت قانونی کاروائی ہو اور کڑی سزا دی جائے۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔