پاکستان میں سیاسی استحکام کیسے آئے؟
پاکستان کو معرض وجود میں آئے 73برس ہونے کو ہیں، لیکن ہنوز ملک میں سیاسی استحکام نہیں آ سکا۔ انصاف کے لئے جمہوری جدوجہد سے حاصل کیے گئے ملک میں پون صدی گزرجانے کے باو جود سیاسی استحکام نہ آنا لمحہء فکریہ ہے۔ آخر وجہ کیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور رہنما خود کو جمہوری قدروں کاپاسبان بھی کہتے ہیں۔ ووٹ کو عزت دینے کے بھی دعویدار ہیں، فوج اور عدالتیں بھی یہی فرماتی ہیں کہ ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں، پھر بھی ملک ابھی تک سیاسی عدم استحکام کا شکار کیوں ہے؟ ہماری سیاسی جماعتوں کو بھی اقتدار کی طرف دیکھنے سے پہلے مقتدر اداروں یا شخصیات کی نگاہ کرم کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام آباد پہنچنے کے لثے براستہ راولپنڈی جائیں گے، تب ہی اسلام آباد پہنچ سکیں گے۔
بیرونی طاقتوں کو بھی جب پاکستان کی ضرورت پڑتی ہے،وہ بھی پاک فوج کے سربراہ سے رابطہ کرتی ہیں۔ ابھی گزشتہ روز امریکی وزیر خارجہ نے ایرانی فورسز کے سربراہ جنرل سلمانی پر حملے اور ایران، امریکہ کشیدگی پر پاکستان کو اعتماد میں لینے کے لئے پاک فوج کے سربراہ جنرل باجوہ ہی کو کال کی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے نہ تو پاکستان کے وزیر خارجہ سے بات کرنے کی زحمت کی، نہ وزیراعظم کی پرواہ کی۔ دُنیا کے کسی بھی ملک میں نہ تو سیاسی استحکام کے بغیر ترقی ممکن ہوئی ہے نہ جمہوری ادارے مضبوط ہو سکے ہیں۔ جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لئے سیاسی استحکام لازمی جزو ہے۔ ہم نے جب ہوش سنبھالا تھا، اس وقت قائداعظم صاحب کا پاکستان دو لخت ہوئے ایک دہائی گزر چکی تھی،باقی ماندہ پاکستان پر مارشل لاء تھا۔ جنرل ضیاء الحق اپنی جمہوریت اور اپنے اسلام کی دکان سجا کر آوازیں لگا رہے تھے…… ”اسلام لے لو، جمہوریت لے لو، معمولی قیمت پر لے لو“ ……قیمت صرف یہ تھی کہ اسلام چاہیے تو مجھے پاکستان کا صدر سمجھو، جمہوریت لینا ہے تو اسمبلی سب سے پہلے آئین میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے مجھے اسمبلیوں کو توڑنے کا اختیار دے۔
اب ظاہر ہے کہ ہم مسلمان بھی ہیں اور جمہوریت پسند بھی، لہٰذا ہم نے اپنے ایمان اور جمہوریت کی خاطر یہ معمولی قیمت ادا کر کے اسلام کو بھی بچایا اور جمہوریت بھی خرید لی، لیکن فوجی جنرل سٹور سے خریدا گیا اسلام ابھی تک خطروں سے نکل پایا ہے،نہ جمہوریت جڑ پکڑ سکی، حتیٰ کہ جنرل ضیاء الحق کی موت کے 11 برس بعد ایک اور جنرل منیجر بن کر اس سٹور پر آ بیٹھا، لیکن اس نے اسلام کو اس سٹور سے اٹھوا دیا، صرف جمہوریت کی سیل لگائی، وہ بھی صاف شفاف دھوئی دھلائی اور پڑھی لکھی جمہوریت، یعنی کم از کم بی اے پاس جمہوریت ……البتہ قیمت اس بار بھی وہی تھی کہ آئین میں سترویں ترمیم کے ذریعے مجھے سٹور کا باوردی منیجر برقرار رکھا جائے تاکہ مَیں جمہوریت کی حفاظت کر سکوں۔
دوسری طرف ہمارے سیاست دانوں نے ایک بار پھر بخوشی یہ قیمت ادا کی اور اسلام آباد کی کرسی حاصل کر لی، اس کے بعد اب تک چار عام انتخابات ہو چکے ہیں، بغیر کسی وقفے کے جمہوری حکومتوں میں انتقال اقتدار ہو رہا ہے۔ سٹور میں بیٹھے جنرل منیجر کی پہلے وردی اتروائی گئی،پھر اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے تمام اختیارات منتخب نمائندوں کو تفویض ہو گئے، لیکن سیاسی استحکام اب بھی ”ہنوز دہلی دور است“ کے مصداق کہیں دور دور تک دکھائی نہیں دیتا،اسی وجہ سے ملکی معیشت ہچکولے لیتی ڈوب رہی ہے۔ ملک میں مہنگائی اور کرپشن کا طوفان اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ حکومت نے 50 کروڑ روپے تک کی کرپشن کو قانونی تحفظ دے دیا ہے، پھر بھی سیاسی استحکام کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔
بہتر تو یہی ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنے کے لئے سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کو راولپنڈی کی طرف دیکھنے کی بجائے ایک دوسرے کی طرف دیکھنا ہوگا، اسلام آباد میں جمہوریت کو مضبوط کرنے سے پہلے اپنے گلی محلوں اور اپنی جماعتوں کے اندر سیاسی استحکام لانا ہوگا،جس طرح اب ساری سیاسی جماعتیں ایک ترمیم کے لئے شیر و شکر ہو گئی ہیں، اسی طرح مل کر اس سیاسی استحکام کے لئے بھی سوچنا ہو گا اور ایک دوسرے کو چور چور، جوتے پالشئے اور سلیکٹڈ سلیکٹڈ پکارنے کے بجائے ایک دوسرے کی حیثیت کو تسلیم کرنا ہو گا۔ الیکشن مہم میں ایک دوسرے کے پیٹ پھاڑنے، سڑکوں پر گھسیٹنے اور جیلوں میں ڈالنے کے نعرے لگا کر عوام میں دشمنیاں پیدا کرنے کی بجائے اپنے منشور، اپنے پروگرام اور اپنے نقطہء نظر کو پیش کرنا ہوگا ……اگر آپ واقعی کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں اور جمہوریت کی مضبوطی اور تسلسل چاہتے ہیں تو پھر سب کو مل کر عوامی فیصلوں کا احترام کرنا ہوگا اور کسی کی بھی حکومت کو گرانے میں اپنا کندھا پیش کرنے سے اجتناب کرنا ہو گا،نیز کرپشن کے خاتمے اور اداروں کے استحکام کے لئے قانون سازی کرنا ہو گی۔
ٹیکس ریونیو اکٹھا کرنے کے لئے ایک دوسرے کے دست و بازو بننا پڑے گا۔ موجودہ صورتِ حال پر میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ مسلم لیگ (ن) کوپہلے ہی سوچ لینا چاہئے تھا اور مدت ملازمت میں توسیع قمر جاوید باجوہ کی بجائے راحیل شریف کو دے دی جاتی تو اتنی تکلیف نہ اٹھانا پڑتی۔ عمران خان صاحب کے لئے بھی یہی کہوں گا کہ چوروں کو جیل میں ڈالنے اور ان سے رقم نکلوانے کے نعروں کی بجائے ان سے بیٹھ کر بات چیت کر لیتے اور ایک بار ان کی کرپشن معاف کر کے آئندہ کے لئے کرپشن کے خاتمے کے لئے کوئی مضبوط قانون سازی کر لیتے اور سیاسی استحکام کے لئے کوئی ضابطہ اخلاق طے کر لیتے تو بہت بہتر ہوتا، کیونکہ لوٹی ہوئی دولت میں سے لیا تو اب بھی کچھ نہیں تو کم از کم آئندہ کی لوٹ مار سے تو بچ جاتے ناں! یا پھر سب مل کر فوج کو آئینی اختیار دے دیں، تاکہ وہ پردے کے پیچھے سے کٹھ پتلیاں نچانے کی بجائے سامنے آکر ذمہ داری بھی لے۔