معاشرے میں تشدد پسندی اور عدم برداشت خطرناک،لمحہ فکریہ
لاہور(حسن عباس زیدی)زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کا کہنا ہے کہ معاشرے میں عدم برداشت کا بڑھتا ہوا رجحان خطرناک ہے، طبقات میں تشدد پسندی اور عدم برداشت،پر تشدد احتجاج کسی بھی صورت درست نہیں۔ شاعر،ڈرامہ نگار،دانشور امجد اسلام امجد نے کہا کہ میری تحریروں اور کالموں میں عدم برداشت کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ لوگوں میں عدم برداشت بڑھتی جا رہی ہے۔ ممتاز کالم نگار سینئر صحافی سرفراز سیدنے کہا کہ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت آج کی بات نہیں، ضیاء الحق کے دور میں ایک سیکرٹری کی بیوی نے ایس پی کو تھپڑ مارا تھا لیکن ان دونوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں ہوئی۔اس وقت کارروائی ہوتی تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔شاعر،کالم نگار اور استاد ناصر بشیر نے کہا کہ عدم برداشت کا رویہ ہمارے سیاستدانوں میں کرپشن کی طرح پھیل چکا ہے۔کوئی کسی کے وجود کو تسلیم نہیں کرنا چاہتا۔ عالم دین علامہ دلدار حیدر جعفری نے کہا کہ کسی بھی بے گناہ شخص پر تشدد کی اسلام ہر گز اجازت نہیں دیتا۔ ممتاز شخصیت بشری ٰ رحمن نے کہا کہ زبان ہی انسان کے کرداراور سوشل بیک گراؤنڈ کی مظہر ہوتی ہے۔ڈائریکٹر جرار رضوی نے کہا کہ معاشرے سے اخلاقیات، برداشت، رواداری اور محبت رخصت ہوجائیں تو وہ ملک یا معاشرہ تباہی کی طرف گامزن ہوجاتا ہے۔ممتاز ادیب حسین مجروح نے کہا کہ سیاستدان رول ماڈل ہوتے ہیں آج کل وہ جو زبان استعمال کررہے ہیں اس کو سن کر حیرانی ہوتی ہے۔شاعرہ فرحت زاہد نے کہا کہ عدم برداشت معاشرے کو تباہی کی جانب لے جاتی ہے۔گلوکار شہزاد رائے نے کہا ہے کہ معاشرے میں عدم برداشت کی کمی کے شدید منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔معروف رائٹر افتخار افی نے کہا کہ ملک کے تعلیمی ادارے فرقہ واریت اور عدم برداشت کے مراکز بنتے جا رہے ہیں۔خطیب ملت اسلامیہ علامہ علی عرفان عابدی نے کہا کہ معاشرے میں پہلے جنگجو نہیں تھے اب مختلف طبقاتی جنگجو معاشرے کا گھیراؤ کئے ہوئے ہیں۔ شاہدہ منی نے کہا کہ سیاستدان معاشرے کے عکاس ہوتے ہیں ان کی جانب سے پرتشدد رویہ بہت بری بات ہے۔
ادیب،رائے