بے اعتباری حکومت
کاروبار دنیا ہی نہیں کاروبار مملکت و سلطنت کی بنیاد بھی اعتبار اور اعتماد پر ہوتی ہے،جہاں اس کا فقدان ہو وہاں کوئی کام ڈھنگ سے انجام دینا ممکن ہی نہیں ہوتا، والدین کو اولاد،اولاد کو والدین،بیوی کو شوہر اور شوہر کو بیوی پر اعتماد اور اعتبار نہ ہو تو گھر کی گاڑی کامیابی سے نہیں چلائی جا سکتی،ایسے ہی ریاست کے ذمہ دار اداروں اور افراد میں اعتماد اور اعتبار کی فضا نہ ہو تو کوئی ادارہ فرائض کی انجام دہی کر سکتا ہے نہ کوئی فرد فرائض منصبی ادا کر سکتا ہے،زوال پذیر ممالک کی تباہی و بر بادی کی بنیادی وجہ اعتماداور اعتبار کی کمی ہوتی ہے،ماضی کی عظیم الشان ریاستیں،جنہوں نے صدیوں کسی علاقہ میں حکمرانی کی اعتماد و اعتبار کے رخصت ہوتے ہی وہ حکومتیں بھی ذلت و رسوائی کا شکار ہو کر تاریخ کی کتابوں میں دفن ہو گئیں۔پاکستان میں بھی عدم اعتمادی اور بے اعتباری کے آسیب کا سایہ ہے جس کی بناء پر حکومتیں بنتی ہیں مگر کوئی بھی حکومت اپنے منشور کے مطابق ملک و قوم کی خدمت کرنے سے عاری رہتی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت بھی بہت سے وعدے وعید کے بعد حکومت سازی کے قابل ہوئی،عمران خان نے انتخابی مہم کے دوران قوم سے ایسے وعدے اور عہد کئے جو ان سے پہلے کسی نے نہ کئے تھے،اسی لئے قوم نے ان کو حکومت کا مینڈیٹ دیا،مگران کی حکومت نہ تو وعدے پورے کر پائی اور نہ سمت اور منزل کا تعین کر سکی،عوام آج بھی انہی مشکلات سے دوچار ہیں جن سے گزشتہ 73سال سے نبرد آزما تھے۔اس صورتحال کی بنیادی وجہ وزیر اعظم کا اپنی کابینہ کے ارکان پر اعتماد اور اعتبار نہ ہونا ہے اس وجہ سے کابینہ کے ارکان بھی بد اعتمادی اور بے اعتباری سے دوچار ہیں،حکومت کو بیوروکریسی پر بھی اعتبار نہیں،اور بیوروکریسی تو یوں ہی بد اعتمادی کی چکی میں پس رہی ہے،کوئی نہیں جانتا وزارت کا قلمدان کب تک اس کے ہاتھ میں ہے کوئی بیوروکریٹ نہیں جانتا وہ اپنے عہدے سے کب فارغ کر دیا جائے،یہی وجہ ہے کہ اب تک وزیر اعظم با اعتماد ٹیم بنانے میں کامیاب نہیں ہو پائے۔
شیخ رشید،اسد عمر،بریگیڈیر اعجاز شاہ، فواد چودھری سمیت متعدد با اعتماد رہنماؤں کی وزارتوں کو بار بار تبدیل کیا گیا، ان پر اعتبار ہی نہیں کیا جاتا، فردوس عاشق اعوان کو پہلے وفاق میں بٹھایا گیا، پھرپنجاب میں مشیر بنا دیا گیا، فیاض چوہان کی وزارت تین مرتبہ تبدیل کی گئی،جب جی چاہا آسمان پر بٹھا دیا اور جب دل کیا فرش نشین کر دیا گیا،پنجاب میں چیف سیکر یٹری اور آئی جی کے اہم ترین عہدے پر اتنی مرتبہ تبدیلی کی گئی کہ اب جو افسر ان عہدوں پر متمکن ہیں ان کو اعتبار ہی نہیں کہ وہ چیف سیکرٹری یا آئی جی ہیں۔ یہا ں میجر اعظم سلیمان اور یوسف نسیم کھوکھر جیسے اعلیٰ چیف سیکرٹریوں پر اعتبار نہیں کیا گیا۔پنجاب میں اب ایک محنتی افسر طاہر خورشید وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری ہیں تو ان پر ہی اعتماد اور اعتبار کیا جائے۔لاہور کے کتنے سی سی پی او تبدیل کرنے ہیں،کسی پر تو اعتبار کر لیں۔ تحریک انصاف کا نعرہ تبدیلی تھا،ملک میں ابھی تک تو وہ تبدیلی نہ لا سکی قوم کے حالات تو نہ سدھرے شائد وہ اپنا شوق وزراء اور بیوروکریسی کی تبدیلیوں سے پورا کر رہی ہے،مگر اس طرح کبھی حقیقی تبدیلی نہیں آتی،تبدیلی کے لئے با اعتماد، تربیت یافتہ ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے،ٹیم کے اہم ارکان میں اعتماد نہ ہو اور ذمہ داروں کو ان پر اعتبار نہ ہو تو کوئی کیسے اپنی کارکردگی دکھا سکتا ہے، اہم نوعیت کے محکموں کو چلانا اور ڈیلیور کرنا،نتائج نہیں آسکتے جب تک ٹیم کے ارکان پر اعتبار نہ کیا جائے،دنیا بھر میں فارمولاہے کہ کام کرنے کیلئے خوشگوار ماحول اور تحفظ کیساتھ فری ہینڈ،سب پر نظر رکھو اور ان پر اعتبار بھی کرو،مگر یہاں صرف شک کیا جاتا ہے، کام کرنے کا ماحول دیا گیا نہ تحفظ اور نہ ہی ان پر اعتبار کیا گیا،ایسے میں تبدیلی کیسے ممکن ہو گی اور وعدوں پر عمل کیسے ہو گا،اگر اعتماد و اعتبار کی فضاء قائم نہ کی گئی تو اب بھی ڈھاک کے وہی تین پاٹ رہیں گے۔
جناب وزیر اعظم زیرک اور دانشمند کپتان دستیاب ٹیم سے ہی بہتر سے بہتر کارکردگی کی توقع کر تے ہیں، ان پر اعتبار کرتے ہیں، فرشتوں کا انتظار نہیں کرتے،اس کا بہترین طریقہ ہے ٹیم کے ارکان کو اعتماد دینا،ان پر اعتبار کرنا،وقت دینا،ماحول اور تحفظ دینا،اس سب کیساتھ ٹاسک دیکر نتائج مانگنا،کوئی کیسے نتائج دیگا جب اس پر اعتبار ہی نہ کیا جائے،اسے ملازمت کا تحفظ حاصل نہ ہو اور کام کرنے کیلئے خوشگوار ماحول میسر نہ ہو۔جناب وزیر اعظم اعتماد، اعتبارہی بنیاد ہوتے ہیں ریاست کو چلانے کیلئے،اگر کپتان کو ٹیم پر اعتماد اور اعتبار نہ ہو تو بہترین کھلاڑی بھی کار کردگی نہیں دکھا سکتے،بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا، بہت سی گھڑیاں بیت چکیں باقی جو بچی ہیں ان کو غنیمت جانیں،اپنی ٹیم پر اعتبار کریں تاکہ وزراء،بیوروکریٹ دل جمعی سے کام کر کے نتائج دیں،ورنہ ”اکیلے پھر رہے ہو یوسف ِبے کارواں ہو کر“