ایم کیو ایم کی روایتی حکمت عملی اور ملکی مسائل: عوام کہاں؟

کراچی میں اِن دنوں پھر سے تاریخ دہرائی جا رہی ہے اور ایم کیو ایم خبروں میں ہے۔ آج ہی یہ خبر بھی آئی کہ ایم کیو ایم (ب) کے کنونیئر مقبول صدیقی ایم کیو ایم (آفاق) سے ملنے پہنچ گئے اور اُن سے ملاقات کی۔ یہ اِس سلسلے کا تسلسل ہے جو گورنر سندھ ٹیسوری نے شروع کیا اور برملا مختلف دھڑوں کو ملا کر متحد کرنے کی کوشش شروع کی۔ اُنہوں نے پاک سرزمین پارٹی کے مصطفےٰ کمال سے مذاکرات کئے تو ڈاکٹر فاروق ستار سے بھی مشاورت کی۔ گورنر نے یہ بات پہلے ہی واضح کر دی ہے کہ ایم کیو ایم وہی ہے جس کے کنونیر مقبول صدیقی ہیں اور وہی سربراہ رہیں گے۔ گورنر کے بقول اُن کو کامیابی کی پوری اُمید ہے۔ ایک طرف یہ سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف متحدہ نے حلقہ بندیوں کے معاملے پر پیپلزپارٹی سے تنازعہ پیدا کر لیا ہے حتیٰ کہ رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کرکے دھمکی بھی دی کہ بات نہ مانی گئی تو حکومتی اتحاد سے علیحدگی بھی ہو سکتی ہے، اِس سلسلے میں پیپلزپارٹی سے ہونے والی ملاقات بھی ناکام ہوئی اور متحدہ کی طرف سے احتجاج کا اعلان کر دیا گیا جو 9جنوری کو ہونا ہے، اِس سلسلے کو جاننے والے بہت کچھ کہہ اور لکھ رہے ہیں، ووٹ بانی کا ہے یہ لاکھ اکٹھے ہو جائیں ووٹ اِن کے پاس نہیں آئے گا۔پانی کے حوالے سے ایسے بیان کی وجہ سے یاد آیا کہ وہ عرصہ دراز سے یہاں لندن میں مقیم ہیں، مجھے یہاں آئے ایک ماہ ہو چلا ہے مگر اُن کی کسی سرگرمی کی کوئی اطلاع ہی نہیں اور نہ ہی لوگ اُن کا ذکرکرتے ہیں، البتہ گزشتہ دنوں اُن کی ایک ویڈیو نظر سے گزری جس کے ذریعے وہ احتجاج کرتے پائے گئے کہ اِن کو پاکستان کا پاسپورٹ نہیں دیا جا رہا، اِس سلسلے میں وہ اپنی روایت کے مطابق دھمکی بھی دیتے نظر آئے، بہرحال یہاں اب وہ اتنی بڑی شخصیت نہیں البتہ زندگی بہتر گزار رہے ہیں۔
پاکستان میں جاری سرگرمیوں سے اندازہ ہوا کہ ایم کیوایم والے حضرات اپنے موقف یا ضد پر قائم ہیں، اُنہوں نے تو بلاول بھٹو کی ایک تقریر کا بھی نوٹس لیا جس میں اُنہوں نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے کہا تھا کہ کراچی کا اگلا میئر جیالا ہوگا۔بلاول نے یہ بات 15-16جنوری کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے کہی تھی ایسا دعویٰ تو جماعت اسلامی اور تحریک انصاف بھی کررہی ہیں، اِس میں رنجیدہ ہونے والی بات کیا ہے جو اکثریت حاصل کرے گا وہی میئرہو گا، لیکن یہ ایم کیو ایم کی حکمت عملی ہے اور پرانی ہے، مجھے یاد آیا کہ جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں تو اُن کے لئے بھی ایم کیو ایم کی حمائت کا سلسلہ ہوا، اُن دنوں بانی کراچی میں تھے، بات چیت کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو نائین زیرو گئیں،اُ ن کا استقبال ہوا، بہن بھائی کے نعرے لگے اور اتحاد ہو گیا، پھر وہ وقت بھی آیا کہ یہ سلسلہ برقرار نہ رہا۔ ہمارے دوست چودھری اعتزازاحسن تب وزیرداخلہ تھے، جب علیحدگی ہو گئی تو ایک ملاقات میں، میں نے چودھری اعتزاز احسن سے پوچھا کہ کیا وجہ ہوئی تو اُن کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم سے کسی کا اتحاد نہیں چل سکتا کیونکہ یہ تنظیم اتحاد کے وقت جو مطالبات کرتی ہے بعد میں بتدریج اُن میں اضافہ کرتی چلی جاتی ہے، پھر ایک وقت آ جاتا ہے کہ اُس کے مطالبات پورے نہیں کئے جا سکتے۔ اُن کی یہ بات بعد میں ثابت ہوتی رہی کہ ایم کیو ایم ہر حکومت کا حصہ رہی،پھر الگ ہوئی۔تازہ
ترین علیحدگی تحریک انصاف سے تھی اور عدم اعتماد کامیاب ہوئی تھی، اب تحریک انصاف اور اِس کی بیان بازی ہوتی ہے، اِس لئے تجزیہ کار اور جاننے والے بہت کچھ کہتے ہیں لیکن مجھے اعتزازاحسن کی یہ بات ہمیشہ یاد رہتی ہے، اب جو الگ ہو کر دھڑے بنے اِن کی واپسی اور ایک ایم کیو ایم کی کوشش چلی ہے تو تحریک انصاف نے مقتدر حلقوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا، پیپلزپارٹی نے بھی تحفظات کے اشارے دیئے ہیں۔ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ اتحاد سر آنکھوں پر لیکن غیر جمہوری بات نہیں مانی جا سکتی جبکہ اُن کے والد آصف علی زرداری نے کہا متحدہ کہیں نہیں جا رہی، دو تین روز میں معاملات درست ہو جائیں گے، حالانکہ اِس سے قبل مسلم لیگ (ن) کا وفد بھی کامیابی کے بغیر واپس چلا گیا تھا اور وزیراعظم محمد شہبازشریف نے خود آصف علی زرداری سے فون پر بات کی تھی، دیکھتے ہیں، اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ پہلا مرحلہ تو خود متحدہ اور بکھرے ہوئے دھڑوں کے اتحاد کا ہے۔ اب تو خود مقبول صدیقی چل کر گئے ہیں، اِس سے قبل اُنہوں نے رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد کہا تھا کہ شناخت (مہاجر) پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، شہری سندھ کے تحفظات دور کرنا اور مسائل حل کرنا ہوں گے۔
ملکی مسائل میں یہ ایک اور اضافہ ہے، یہ سب اِس ملک پاکستان میں ہو رہا ہے جو معاشی بدحالی کا شکار ہے اور دیوالیہ دیوالیہ کی بات ہو رہی ہے۔ بس دعوے اور نعرے ہیں لیکن عملی صورت حال مختلف ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ سب تنازعات چھوڑ کر معاشی استحکام کی کوشش کی جائے لیکن اب یہ یقین ہونے لگا ہے کہ کسی کو ملک اور عوام کی فکر نہیں اور یہ سب تنازعات اِس لئے پیدا کئے جا رہے ہیں کہ عوام مسائل کے بارے میں یکسو نہ ہوں۔ حقائق یہ ہیں کہ ملک کے اندر اِس نوعیت کی تقسیم پیدا کر دی گئی ہے کہ اب عوام معیشت اور بیرونی خطرات کے حوالے سے بھی اپنی اپنی جماعتوں کے نقطہ ء نظر سے سوچتے اور بات کرتے ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے پالیسی پر بھی اختلاف ہے۔ عمران خان اور حکومت کے نقطہ ء نظر میں فرق ہے یہ معمولی ہے کہ یہ دونوں مذاکرات کے حامی ہیں مگر شرائط اور طریق کار کا اختلاف ہے، مگر پیپلزپارٹی برملا دہشت گردی کے حوالے سے ٹی ٹی پی کے سلسلے میں مختلف نظریہ رکھتی ہے اور بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ روز بھی کوئی تحفظ نہیں رکھا۔ یوں عوامی مسائل آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل والے ہو چکے ہیں۔
یہاں برطانیہ میں بھی مہنگائی ہوئی اور احتجاج بھی ہے۔ حال ہی میں گیس اور بجلی کے نرخوں میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ ملازمین کا تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ ہے، اُس کے باوجود یہاں عوام کا گزارا ہو رہا ہے اور گڈگورننس متاثر نہیں ہوئی۔ پارلیمنٹ میں بحث ہو رہی ہے۔ میں نے یہاں اپنے ذہنی تفکرات کے حوالے سے مطالعہ اور غور کیا ہے تو اندازہ ہوا کہ یہاں آج کے سخت حالات میں بھی عوام کے لئے سہولتیں موجود ہیں اور ابھی وہ نوبت نہیں آئی کہ غربت کی لکیر والی بات ہو، یہاں حزب اقتدار اپنا کام کرتی ہے تو حزب اختلاف اپنے منشور اور پروگرام کے حوالے سے تنقید کرتی ہے۔ یوں نظام چل رہا ہے، تھوڑے عرصے میں تین وزیراعظم تبدیل ہو گئے، مگر نہ تو اپوزیشن نے دھرنا دیا اور نہ ہی عدم اعتماد والی بات ہوئی، وقت پر انتخابات کا انتظار ہے، سرکاری شعبے اپنے فرائض معمول کے طو رپر ادا کررہے ہیں، عوام بھی اچھے شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہیں، میں نے یہاں ٹریفک کی بات پہلے کر دی تھی، اب یہ عرض کرنا ہے کہ لندن ہو یا برمنگھم یا کوئی اور شہر یہاں پبلک سروس بھی بہت ہے۔ ٹرین کے علاوہ ہر شہر میں بس سروس ہے اور اچھی بسیں چلتی ہیں۔ اوقات کار کے مطابق رواں رہتی ہیں حتیٰ کہ اکثر اوقات بسیں خالی اور دوچار مسافر لئے ہوئے بھی رواں نظر آئیں۔ لوگ سفر بھی کرتے ہیں اور ذاتی گاڑیوں کا سلسلہ بھی موجود ہے۔ حکومت بھی لاپروا نہیں۔