وزیراعظم کی مہمان اماراتی صدر سے ملاقات

وزیراعظم کی مہمان اماراتی صدر سے ملاقات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزیرِاعظم شہباز شریف نے اتوار کو رحیم یار خان میں متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان سے ملاقات کی جس میں دونوں رہنماؤں نے اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی تعلقات کو مزید فروغ دینے کیلئے مشترکہ عزم کا اظہار کیا۔  میڈیا رپورٹس کے مطابق متحدہ عرب امارات نے کان کنی، معدنیات اور زراعت کے شعبوں جبکہ پاکستان نے توانائی، ٹیکنالوجی، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور نوجوانوں کی پیشہ وارانہ تربیت کے فروغ میں تعاون اور دلچسپی کا اظہار کیا۔ دونوں رہنماؤں نے خطے میں اَمن اور ترقی کیلئے باہمی دلچسپی کے امور پر مل کر کام کرنے کے حوالے سے تفصیلی بات چیت بھی کی۔  دورانِ ملاقات شیخ محمد بن زید النہیان نے پاکستان کی معیشت مستحکم کرنے کیلئے وزیراعظم شہباز شریف کی متحرک قیادت کی تعریف کی اور زور دیا کہ دو طرفہ سرمایہ کاری اور تعاون میں اضافے کے امکانات سے فائدہ اْٹھانا چاہئے۔ متحدہ عرب امارات کے صدر نے پاکستان کے ساتھ اپنی دیرینہ شراکت داری کو بڑھانے کیلئے یو اے ای کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے عوامی روابط اور مشترکہ خوشحالی کی اہمیت پر زور دیا۔ وزیرِاعظم شہباز شریف نے پاکستان کی ترقی کے سفر میں یو اے ای کے اہم کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے مشکل وقت میں خاص طور پر اقتصادی تعاون کے ضمن میں یو اے ای کی حمایت غیر متزلزل رہی جس پر وہ شیخ زید محمد بن النہیان کے شکرگزار ہیں۔ ملاقات میں نائب وزیرِاعظم اسحاق ڈار، وزیرِاعلیٰ پنجاب مریم نواز، وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف، وفاقی وزیر برائے اطلاعات اور نشریات عطا اللہ تارڑ کے علاوہ وزیراعظم کے معاون خصوصی سید طارق فاطمی بھی وجود تھے۔ وزیرِاعظم جب متحدہ عرب امارات کے صدر سے ملاقات کیلئے رحیم یار پہنچے تو شیخ محمد نے وزیرِاعظم کو ساتھ بٹھا کر گاڑی خود چلائی، دونوں رہنما کافی دیر گاڑی میں بیٹھ کر غیر رسمی اور خوشگوار گفتگو کرتے رہے۔ چند روز قبل پانچ جنوری کو خبر آئی تھی کہ پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تجارت کا حجم  10 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ پاکستان بزنس کونسل دبئی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قونصل جنرل کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کی تجارت حالیہ سطح سے مزید تین گْنا بڑھائی جا سکتی ہے۔ چیئرمین پاکستان بزنس کونسل دبئی نے کہاتھا کہ دونوں ممالک میں اقتصادی شراکت داری کا معاہدہ ہو جائے تو تجارتی ٹیرف میں کمی لائی جا سکتی ہے جبکہ اِس سے“میڈ اِن پاکستان”ویژن کو بھی فروغ ملے گا،سٹارٹ اپس کو پاک۔امارات تجارتی حکمتِ عملی میں مرکزی حیثیت دی جائے گی۔ 

متحدہ عرب امارات پاکستان کا برادر اسلامی ملک ہے، اِس کی ترقی میں پاکستانیوں کی محنت بھی شامل ہے، جس کی قدر یو اے ای کے حکمران ہمیشہ کرتے ہیں، آج بھی 18 لاکھ سے زائد پاکستانی یو اے ای کی مختلف ریاستوں میں کام کر رہے ہیں۔ پاکستان پر جب بھی بْرا وقت آیا ہے، یواے ای نے اِس کا بھر پور ساتھ دیا، ہر ممکن تعاون کیا۔ پاکستانی معیشت جب ڈیفالٹ کے دہانے پرتھی تو جہاں چین اور سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ دیا وہاں یو اے ای نے بھی پاکستان کو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی بیرونی فنڈنگ کی شرط پوری کرنے کے لیے دو ارب  ڈالر قرض دیا۔ گزشتہ سال اِس قرض کو یو اے ای نے نہ صرف رول اوور کر دیا بلکہ پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر بہتر بنانے کے لیے ایک ارب ڈالر مزید قرض دینے کا اعلان بھی کیا۔ یہ خبر وزیرِاعظم کی ابو ظہبی میں اماراتی صدر سے گزشتہ سال جنوری میں ملاقات کے وقت سامنے آئی تھی۔ اِس کے بعد گزشتہ سال مئی میں دونوں رہنماؤں کی ابوظہبی ہی میں ہونے والی ملاقات کے بعد اماراتی صدر نے پاکستان کے انفارمیشن ٹیکنالوجی، قابلِ تجدید توانائی اور سیاحت سمیت کئی شعبوں میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا جبکہ وزیراعظم نے اْنہیں پاکستان  کے سرکاری دورے کی دعوت دی تھی جسے اُنہوں نے قبول کر لیا تھا۔ 

اقوامِ متحدہ ہو یا کوئی اور عالمی پلیٹ فارم، فلسطین کا مسئلہ ہو یا کوئی اور، متحدہ عرب امارات زیادہ تر پاکستان ہی کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔ یو اے آئی اگرچہ بھارت کا آٹھواں بڑا سرمایہ کار ہے اور وہاں کام کرنے والے بھارتیوں کی تعداد پاکستانیوں سے دو گْنا  سے بھی زائد ہے لیکن اِس کے باوجود برادر اسلامی ملک ہونے کی وجہ سے اُسے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے زیادہ قریب سمجھا جاتا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا  کے مطابق وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں بہتری کا خواہاں بھی ہے، اِس کے لیے کوشش بھی کرتاہے، ماضی میں جب جب پاک بھارت تعلقات میں بہتری آئی اُس میں یو اے ای کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ گزشتہ ماہ صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے متحدہ عرب امارات کے قومی دن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اور یو اے ای کے درمیان نہ صرف سٹریٹجک شراکت داری ہے بلکہ وہ پاکستان کا اہم اقتصادی شراکت دار بھی ہے۔ 

اماراتی صدر نے کان کنی، معدنیات اور زراعت کے شعبوں میں دلچسپی کا اظہار کیا  ہے، پاکستان کو چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ اماراتی سرمایہ کاری ملک میں لانے کے لیے بنا وقت ضائع کیے اُسے اِن شعبوں میں سرمایہ کاری کے بہترین مواقع تجویز کرے،ویسے بھی یہ شعبے پہلے ہی سے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کی ترجیحی فہرست میں شامل ہیں، اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہئے۔ متحدہ عرب امارات گزشہ سال پاکستان میں 10ارب ڈالر  کی سرمایہ کاری کا اعلان بھی کر چکا ہے، اس میں اضافہ بھی ہو سکتاہے،بھارت کی طرح پاکستان میں بھی اماراتی سرمایہ کاری کا حجم کئی گْنا بڑھ سکتا ہے بشرطیکہ پاکستان اِس کے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرے۔ ملک پر پڑے قرضوں کے بوجھ کو سرمایہ کاری ہی سے کم کیا جا سکتا ہے، یہ قرض اور اْن کی ادائیگیاں ہی تھیں جن کی وجہ سے ملکی معیشت ڈیفالٹ کے دہانے تک پہنچی تھی، اب اِسے درجنوں ارب ڈالر سالانہ کی بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ اِس کا حجم اْس سطح تک پہنچایا جا سکے جہاں قرض یا اقساط کی ادائیگیوں اور آمدن کے درمیان توازن پیدا ہو سکے۔ چند روز قبل پاکستان نے“اْڑان پاکستان”پروگرام کا اعلان بھی کیا ہے جس کے تحت آئندہ 10 سال میں معیشت کے حجم کو ایک ہزار ارب ڈالر کی سطح تک جبکہ آئندہ پانچ سال میں برآمدات کو سالانہ 60 ارب ڈالر تک لے جانے کے اہداف طے کیے گئے ہیں جن کو حاصل کرنے کا ذریعہ  بیرونی سرمایہ کاری ہے جس کے لئے سازگار ماحول کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے۔پاکستان کے دوست ممالک ہمیشہ مشکل میں اس کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں، پاکستان کو اپنے معاملات چلانے کے لئے قرض دینے سے بھی نہیں ہچکچاتے لیکن معاشی استحکام کے لئے ضروری ہے کہ قرض کی بجائے سرمایہ کاری پر انحصار کیا جائے، اپنی برآمدات میں اضافہ کیا جائے،خلوص نیت کے ساتھ کوشش کی جائے تو پاکستان آج پھر ماضی کی طرح قرضہ لینے کی بجائے دینے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہو سکتا ہے، مل کر چلیں تو مشکل سے مشکل راستہ بھی کٹ جاتا ہے، منزل مل ہی جاتی ہے۔

مزید :

رائے -اداریہ -