شہباز کی اونچی اڑان مگر عوام پریشان

وزیراعظم شہباز شریف نے اڑان پاکستان کے نام سے ترقی کے ایک ایسے منصوبے کا آغاز کیا ہے جو 2035ء تک تمام مسائل حل کرنے کی نوید دیتا ہے۔ اس پروگرام کے تحت پیداوار اور برآمدات بڑھانے،پاکستانی مصنوعات کے معیار کو عالمی معیار کے ہم پلہ بنانے، روزگار کے مواقع فراہم کرنے، آئی ٹی کے شعبے میں انقلاب پیدا کرنے، انفراسٹرکچر، زراعت اور تعمیرات کے شعبوں کو ترقی دینے سمیت بہت بڑے بڑے منصوبے شامل ہیں بظاہر یہ ایک ایسا پروگرام ہے جس کی پاکستان کو اشد ضرورت ہے اور کسی بھی ملک کی ترقی کا راز ایسے ہی منصوبوں میں مضمر ہوتا ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس سے پہلی حکومتوں کو اس کا علم نہیں تھا یا ان کے پاس ایسے منصوبوں کے اختیارات نہیں تھے؟ جہاں تک ہمیں یاد ہے ہر حکومت نے اس طرح کے انقلابی اعلانات کیے، مگر عملدرآمد نہیں ہوا، اس سے پہلے ن لیگ ہی کے دور میں منصوبہ بندی کے وزیر احسن اقبال صاحب نے بھی ایک 25 سالہ پروگرام دیا تھا ہر حکومت میں بڑے بڑے دعوے کیے جاتے رہے ہیں، لیکن پاکستان دن بدن تنزلی کی طرف ہی لڑھکتا رہا ہے اور عوام بدحال ہوتے رہے ہیں یہ منصوبے کہاں چلے جاتے ہیں یا ان کو کون کھا جاتا ہے؟ 98ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد میاں نواز شریف صاحب نے بھی ”قرض مکاؤ ملک سنوارو“ پروگرام کا اعلان کیا تھا مگر قرض مکا نہ ملک سنورا، راقم ہمیشہ اچھی امید رکھتا ہے اور مایوس ہوتا ہے نہ مایوسی پھیلانا مقصد ہے، لیکن امید قائم کرتے ہوئے زمینی حقائق اور آنے والے حالات پر ضرور غور کرنا پڑتا ہے۔ وزیراعظم صاحب نے افتتاحی تقریب سے خطاب میں اس پروگرام کی کامیابی کے لئے اتفاق رائے کو ناگزیر بتایا ہے اور فرمایا ہے کہ سب کو مل کر پاکستان کو آگے لے جانے کے لئے کام کرنا ہو گا تو کیا ملک میں ایسے حالات ہیں کہ اتفاقِ رائے قائم کیا جا سکے؟ کیا ملک کے تمام اسٹیک ہولڈر آپ کی مدد کریں گے؟ یہ درست ہے کہ وقتی طور پر مقتدرہ کی حمایت آپ کو حاصل ہے لیکن ہماری تاریخ یہ رہی ہے کہ مقتدرہ کبھی کسی حکومت یا کسی سیاستدان کے ساتھ طویل مدتی تعلقات نہیں رکھ سکی۔ دوسری طرف اگر سیاستدانوں کی بات کی جائے تو حزبِ اختلاف تو مسئلہ ہے ہی آپ کے اتحادی بھی زیادہ مطمئن نظر نہیں آتے، کوئی بھی حکومت اس وقت تک اپنے منصوبوں کو پایہئ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتی جب تک اسے عوام، سرمایہ کاروں اور تمام اداروں کا تعاون حاصل نہ ہو اس وقت وطن عزیز کی حالت یہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام اپنے عروج پر ہے اور عوام کا اپنی ریاست پر اعتماد ہے نہ ریاستی اداروں کا اعتبار ہے جس ملک سے دو اڑھائی برس کے دوران ایک ملین سے زیادہ لوگ بیرون ممالک ہجرت کر گئے ہوں اور کئی ملین قطار میں کھڑے اپنے پاسپورٹ اور ویزے کے مواقع کے منتظر ہوں اس ملک کی حکومت کو سب سے پہلے عوام کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
جناب وزیراعظم صاحب آپ کو یہ علم ہونا چاہئے کہ کسی بھی ملک کی ترقی اس ملک کے عوام کی سوچ، دیانت، ملک سے محبت اور اداروں کی شفافیت کی مرہون منت ہوتی ہے، جبکہ ہمارے ملک میں کوئی شعبہ ایسا نہیں جو بدعنوانی میں لتھڑا نہ ہو، کسی ادارے کا کوئی بھی بندہ اپنے ذاتی مفاد سے بالاتر سوچ رکھتا ہے نہ کام کرتا ہے، حکومتی شخصیات سے عام آدمی تک کسی کو بھی ریاستی اثاثوں کی پرواہ نہیں ہے ملکی پیداوار بڑھانا اور اپنی مصنوعات کو عالمی معیار کے مطابق بنانا صنعتی انقلاب اور ایمانداری سے مشروط ہے ہمارے ملک کی صنعتوں کو جن مسائل کا سامنا ہے اس میں سب سے زیادہ بجلی کی قیمتیں ہیں کیا آپ صنعتوں کو بجلی اتنی سستی دے سکیں گے کہ وہ عالمی معیار کی مصنوعات کو چینی مصنوعات سے کم قیمت میں مارکیٹ میں لا سکیں؟ جہاں تک زراعت کی بات ہے وہ ملک میں زرعی اصلاحات لائے بغیر ممکن ہی نہیں کہ ہم زرعی اجناس میں خاطرخواہ اضافہ کر کے ملکی ضروریات کو پورا کر سکیں اور برآمد بھی کر سکیں، ہمارے ہاں لاکھوں ایکڑ اراضی بنجر یا غیر آباد ہے، محکمہ زراعت کی کارکردگی سب کے سامنے ہے جن جاگیرداروں کے پاس سینکڑوں یا ہزاروں ایکڑ اراضی ہے انہیں ساری آباد کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور جن بارانی علاقوں میں چھوٹے زمینداروں کے پاس زمین کنالوں میں ہے وہ اس لئے زمینداری چھوڑ چکے ہیں کہ اس زمین سے ان کی گزر اوقات نہیں ہو سکتی لہذا وہ زمینوں کو غیر آباد چھوڑ کر ملک کے اندر یا ملک سے باہر کوئی کام ڈھونڈ لیتے ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک اپنی زرعی اجناس کو بڑھانے اور خود کفالت کے لئے زرعی اصلاحات کرتے ہیں زراعت پر قانون سازی کرتے ہیں اور اپنے زمینداروں کو مراعات دے کر ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اس طرف کبھی توجہ ہی نہیں دی گئی، جناب وزیراعظم صاحب کبھی موقع ملے تو ایک سفر آزاد کشمیر سے شروع کر کے پنجاب کے بارانی علاقوں سے ہوتے ہوئے بلوچستان تک جائیں اور غور کریں کہ ہماری کتنی زیادہ زرعی زمینیں غیر آباد ہیں جنہیں آباد کر کے لاکھوں ٹن اناج پیدا کیا جا سکتا ہے پھر ذرا غور کرنا کہ ہمارے ملک میں فارغ افرادی قوت کی تعداد کیا ہے؟ اب افرادی قوت کی موجودگی میں ہماری لاکھوں ایکڑ اراضی بیکار پڑی ہے تو پھر ہم کون سی اڑان بھریں گے؟دوسری طرف پنجاب کی بہترین زرعی اراضی کے اوپر دھڑا دھڑ رہائشی کالونیوں کا کام جاری ہے اور ہمارا سرمایہ دار اس منجمد شعبے میں اپنا سرمایہ لگا کر کئی گنا منافع کما کر بیرون ملک منتقل کر رہا ہے تو کیا اس طرح ہم اونچی اڑان کی توقع رکھ سکتے ہیں۔
کالم کی طوالت سے بچنے کے لئے آخری توجہ اس طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی منصوبہ بندی کرتے وقت زمینی حقائق کا ادراک ہونا اور اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات ضروری ہوتے ہیں اگر آپ ملک کو معاشی طور پر مضبوط کرنے اور اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں سنجیدہ ہیں تو پھر کام اوپر سے شروع کر کے بدعنوانی پر قابو پایا جائے اور تمام ریاستی اداروں کی نئے سرے سے تربیت کر کے انہیں ذمہ دار بنا کر اداروں پر عوام کا اعتماد بحال کیا جائے اور سب سے اہم ساری سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینے کے لئے تلخیوں کو کم کیا جائے اپنی دوسرے درجے کی سیاسی قیادت کو خاموش کر کے حزبِ اختلاف کی جائز شکایات کو دور کیا جائے۔
٭٭٭٭٭