مذاکرات ملکی فیصلے کرنیوالوں سے ہی کامیاب ہوں گے،عارف علوی

سابق صدر عارف علوی نے کہا ہے کہ "مذاکرات ملکی فیصلے کرنیوالوں سے ہی کامیاب ہو ں گے" کیونکہ حکومت اگر مذاکرات کر بھی رہی ہے تو مکمل طور پر بے اختیار ہے جو کہ ویسے بھی فارم سینتالیس کے زور پر کھڑی ہے جبکہ بصورتِ دیگر بھی وہ ہمیشہ سے بے اختیار ہی چلی آتی ہے کیونکہ میں تو خود صدر رہاہوں اور مجھ سے زیادہ اِس بات سے کون واقف ہو سکتا ہے اِس لیے اِسکا آغاز ہی غلط ہْوا ہے کیونکہ اس کے فریقین ہی درست نہیں ہیں۔ اِس لئے یہ مذا کرات وقت کے ضیا ع کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتے اور یہ بات حکومت بھی بہت اچھی طرح سے جانتی ہے کیونکہ وہ اپنی اوقات کو خوب سمجھتی ہے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ مزید وقت ضائع کئے بغیر اصل فریق کو اِس میں شامل ہونے پر آمادہ کیا جائے تاکہ مذاکرات نتیجہ خیز ہو سکیں کیونکہ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ اصل فریق اِن مذاکرات کے حق میں ہی نہیں ہے ورنہ وہ اِن میں ضرور شامل ہوتا اور اگر اصل فریق نے اِن مذاکرات کے نتائج کی منظوری ہی نہیں دینی تو اتنا وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے اور پیش تر اِس کے کہ حکومت کو اِس کی اوقات یاد دلائی جائے اِسے چاہیے کہ خود ہی سنبھل جائے کیونکہ اپنی عزت اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔آپ اگلے روز پشاور میں میڈیا سے خطاب کر رہے ہیں۔
پاکستان میں اقلیتوں کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہے،محسن نقوی
وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ "پاکستان میں اقلیتوں کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہے "البتہ اکثریت اِس سے کافی حد تک محروم ہے کیونکہ آزٓدی ایسی چیز نہیں کہ ہر کسی کو دے دی جائے جبکہ اکثریت ویسے بھی گمراہ ہو چکی ہے اور شر انگیزیاں اختیار کر چکی ہیں اِس لیے اسے اوقات میں رکھنا اور اِس پر پابندیاں لگانا بے حد ضروری ہو چکا ہے کیونکہ اسے جلسے کرنے تحریکیں چلانے اور دھرنے دینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں آتا جو کہ سراسر شر انگیزی ہے او ر اگر حکومت جلسوں کو اچھا سمجھتی تو خود بھی جلسے منعقد کیا کرتی لیکن حکومت چونکہ سراسر جمہوری روایات کی پابند ہے اور اگر ملک میں پارلیمنٹ بھی موجو د ہو اور صوبائی اسمبلیاں بھی ہو ں تو پھر جلسے وغیرہ کرنے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے لیکن اکثریت کو جمہوری روایات کا ہر گز کوئی خیال نہیں ہے اور یہ حکومت ہی ہے جو اسے ہمیشہ گرفتاریوں مار کْٹائی اور گھروں پر چھاپوں سے جمہوری اصولوں کی یاد دلاتی رہتی ہے لیکن یہ شاید حافظے کی کمزوری کی وجہ سے یہ سبق بہت جلد بھو ل جاتی ہے اور ہمیں اسے بار اِن کارروائیوں کے ذریعے اسے یاد دلانا پڑتا ہے حتیٰ کہ اِس پر مار پیٹ وغیرہ کا بھی کوئی اثر نہیں پڑتا اور یہ اپنی شر انگیزیاں جاری رکھتی ہے اور ہمیں اِس کی اصلاح کے لیے مذکورہ ساری کارروائیاں بار بار کرنا پڑتی ہیں اور یہ اپنی شر انگیزیاں جاری رکھتی ہے اور ہمیں اِس کی اصلاح کے لیے ساری کارروائیاں بار بارکرنا پڑتی ہیں آپ اگلے روز کرسمس کے موقع پر ایک مسیحی تقریب میں شرکت کر رہے تھے۔
اسلام آباد میں بیٹھے ساٹھ ستر سال کے بابے صرف اپنے بجٹ کے مطابق منصوبے بناتے ہیں،بلاول بھٹو
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ "اسلام آباد میں بیٹھے ساٹھ ستر سال کے بابے صرف اپنے بجٹ کے مطابق منصوبے بناتے ہیں "جبکہ ہمارا بابا بابوں میں واحد بابا ہے جو صرف آنے والی آمدن کے حوالے سے منصوبے بناتا ہے کہ یہ کہاں کہاں سے آنی ہے او ر اِسے ملک سے باہر کیسے بھیجنا ہے جبکہ ترجیحی طور پر اِن کی نظر روز ویلٹ ہوٹل اور دیگر عمارات پر ہے جن کی نیلامی پر اِن کی ساری توجہ مرکوز ہے۔ صرف حکومت کی طرف سے گرین سگنل کی ضرور ت ہے جس کے بعد اربوں ڈالر کا کمیشن تو کہیں گیا ہی نہیں اور جس میں اب زیادہ دیر اِس لیے نہیں کی جانی چاہیے کہ اِن عمارا ت کو خستگی بھی درپیش ہے اور اِن کی مرمت پر بھی کافی خرچہ اْٹھ سکتا ہے اِس لیے انہیں جلد از جلد نیلام کر کے پیسے کھرے کر لینے چاہییں کیونکہ حکومت کو ویسے بھی پیسے کی اشد ضرورت ہے اور اِن عمارتوں کو مْنہدم ہونے کیلئے زیادہ عرصے تک التوا ء میں نہیں رکھا جا سکتا اِس لیے بھی جلد از جلد یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچانا ضروری ہے تا کہ ہمارے بابا جی اِس سے فارغ ہو کر کسی نئے پروجیکٹ پر اپنی توجہ دے سکیں کیونکہ ماشاء اللہ اِن کے زیرِ نظر ہمیشہ ایسا کوئی نہ کوئی منصوبہ رہتا ہے جس سے آمدنی میں جلد از جلد اور زیادہ سے زیادہ منافع حاصل ہو سکے۔آپ اگلے روز سندھ جامشورو یونیورسٹی کے کانوو کیشن سے خطاب کر رہے تھے۔
مکمل تباہی
جن دنوں کرشنا مینن یواین او میں بھارت کی نمائندگی کر رہے تھے اْن کے بارے میں ایک لطیفہ بہت مشہور ہْوا کہ اگر کرشنا مینن سمندر میں ڈوب جائیں تو یہ ایک المیہ ہو گا اور اگر اْنہیں ڈوبنے سے بچا لیا جائے تو یہ ایک مکمل تباہی ہو گی!
اور اب آخر میں ندیم ملک کی یہ غزل۔
شہرِ غم کی تمام گلیوں میں
کر رہاہوں کلام گلیوں میں
آگیا ہوں میں لوٹ کر گھر سے
کیجئے اہتمام گلیوں میں
کیا تجھے علم ہی نہیں ہے دوست
خاص ہوتے ہیں عام گلیوں میں
آج وہ ہو گئے فنا فی اللہ
لگ گئے جن کے دام گلیوں میں
پھر ملاقات ہو نہیں سکتی
آخر ی ہے قیام گلیوں میں
پاؤں میں ڈال کر تری زنجیر
پھر رہا ہے غلام گلیوں میں
ہے نظر باز آدمی وہ ندیم
کر رہا ہے جو شام گلیوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کا مقطع
یہاں کسی کو بھی کچھ حسبِ آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تْونہ ملا