لالہ ء صحرائی ایک منفرد نعت گو
7جولائی 2015ء کو نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے ایک سچے عاشق اور پیروکار، نعت نگار اور علامہ ا قبال کے نقشِ قدم پر چلنے والے چودھری محمد صادق لالہ صحرائی کی پندرھویں برسی منائی جا رہی ہے۔ چودھری محمد صادق گرم جوش بلندنگاہ، پاکیزہ سیرت، روشن دماغ، شائستہ ذوق، پاک طینت، عاشق رسولؐ تھے، جنہوں نے پوری زندگی عزم و ہمت سے مستعد گزاری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو درد مندل دل اور حقیقت شناس فکر عطا فرمائی تھی، جسے انہوں نے ملک و قوم کی فلاح، نوجوان نسل کی فکری تربیت اور نعت رسول مقبولؐ لکھنے میں بڑی سعادت مندی سے استعمال کیا۔مرحوم بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ ساری عمر نعت نگاری کے ساتھ ساتھ پوری استقامت سے اسلامی تحریک کے لئے خدمات انجام دیتے رہے اور ہمیشہ قلم کی عصمت کو ملحوظ خاطر رکھا۔ علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے:
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مرد کوہستانی
لیکن لالہ ء صحرائی نے شائد قدرت کے مقاصد کی نگہبانی نہ کی ہو، مگر قدرت کے ان مقاصد کی ترجمانی کا حق ضرور ادا کر دیا ہے جو اس نے مولائے کُل، ختم الرسل، تاجدار مدینہ، راحت قلم و سینہ نبی پاکؐؐ کی اس دنیا میں تشریف آوری کے سلسلے میں انسان کی رہنمائی اور فلاح و بہبود کے سلسلے میں متعین کئے تھے۔ لگتا ہے کہ قدرت نے اس مقصد کے لئے ان کی خاص رہنمائی اور تربیت خود کی تھی۔ وہ ایک نیم خواندہ گھرانے میں امرتسر ضلع کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے، جہانیاں کے نیم ترقی یافتہ اور نیم صحرائی علاقے میں پروان چڑھے۔ حالات کی تلخیوں اور زمانے کی چیرہ دستیوں نے انہیں اعلیٰ تعلیم کے حصول سے محروم رکھا، مگر اب ان کے کام پر ایم فل تک تحقیقی کام ہو رہا ہے۔ جہانیاں میں انہیں انتہائی مہذب اور سادہ خاندانی ماحول، تقسیم ہند کے بعد مشرقی پنجاب سے تشریف لانے والے عابد و زاہد حکیم محمدعبداللہ سلیمانی کی سرپرستی اور ان کے فرزندانِ ارجمند عبدالحمید اور چودھری نذیر احمدکی رفاقت نصیب ہوئی اور مولانا مودودیؒ کی فکری رہنمائی اور روحانی آبیاری نے چودھری محمد صادق لالہ ء صحرائی کے روپ میں وہ تازگی، زبان کی شائستگی، فصاحت اور رنگ و ادب بخشا کہ دنیا ان کی گرویدہ ہو گئی۔
انہوں نے اپنی قوتِ ارادی ، غیر معمولی ریاضت اور اللہ کے فضل سے شعر و ادب میں جو مقام پیدا کیا، اپنی تحریروں کے ذریعے ہزاروں انسانوں کو اس طرح جاذب دل اور خوشگوار بنایا کہ لوگوں کے دلوں میں جاگزیں ہو گئے، اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کی قلمی یلغار کا اس طرح بھرپور جواب دیا کہ حریفوں کے دانت کھٹے ہو گئے اور انہیں منہ کی کھانا پڑی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں کمال صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ بیک وقت ایک افسانہ نگار، داستان گو، بلند پایہ انشا پرداز، زبردست طنزنگار، باکمال قلمی مصور، معتبر قلمی نقاد اور سب سے بڑھ کر عشق رسولؐ کے جذبے سے سرشار نعت نگار تھے۔ وہ انگریزی اور اردو پر یکساں دسترس رکھتے تھے اور ایک صاحب طرزادیب تھے، جن کی تحریر سادگی اور پر کاری کا خوبصورت نمونہ تھی۔ انہوں نے نعت نگاری کو اپنی زندگی کا محور بنایا۔۔۔ اس میں یدطولیٰ حاصل کیا، فرماتے ہیں:
نعت میری شاعری اور نعت میری زندگی
نعت کے انوار سے تابندہ میری موت ہو
جب کرے پرواز دنیا سے میری روح نزار
شور ہو افلاک میں اک اور آیا نعت گو
(از نعت چراغاں)
اس جہان عارضی میں جن بزرگوں نے دین و دنیا میں اپنا مقام پیدا کیا ہے، ان میں ایک بات مشترک ہے کہ ان کی والدہ نے انہیں بچپن میں قرآن مجید کی تلاوت کی لوریاں دی ہیں۔ بعض بزرگوں نے اپنی والدہ کی زبان سے قرآن مجید کی تلاوت سن کر ہی قرآن مجید حفظ کرنے کی سعادت بھی حاصل کی ہے، بعض نے قرآن مجید سے اپنی محبت کا حق خلقِ خدا کی رہنمائی کرکے ادا کیا ہے۔ محترم لالہ ء صحرائی کی والدہ محترمہ نے دنیاوی تعلیم نہ ہونے کے باوجود گھر میں چکی پیستے ہوئے سورۂ یٰسین کی تلاوت پر مداومت فرما کر اپنے بچوں سے نہ صرف اس سے لگاؤ پیدا کر دیا، بلکہ ان کے دلوں میں اسلام کی سربلندی اور اللہ تعالیٰ کی عظمت پیدا کی اور ان کے دلوں کو انوارِ قرآن کا مرکز بنا دیا، جس کے زیر اثران کے دل میں صاحب قرآن سے ایسی لگن پیدا ہوئی کہ ان کی زبان بلبل ریاض رسولؐ بن گئی اور ان کی ذات لالہ ء صحرائی بن گئی، جو اپنے حسن و سیرت میں شتگفتگی میں بے مثال اور لازوال ہوتا ہے۔
علامہ اقبال کو بھی گل لالہ سے انتہا کا پیار تھا اور انہوں نے اسے عشق کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چودھری محمد صادق مرحوم نے بھی عشق رسولؐ میں خود کو لالہ صحرائی کہلانا پسند کیا اور اپنی شاعری میں اس کا حق ادا کر دیا ہے۔ جہاں تک ان کی شاعری کے فنی محاسن اور ان کے طرز ادا کا تعلق ہے ، میں یہ کام ان پر ایم فل کرنے والے دانشوروں پر چھوڑتا ہوں، ان کی نعت انسان کے دل کے تاروں کو اس انداز سے چھیڑتی ہے کہ وہ اس کے سرور میں مگن ہو کر عرفان کی معرفت کی حدوں کو چھونے لگتا ہے۔