لازوال گیتوں کے خالق ،بے مثل شاعر قتیل شفائی کی آپ بیتی۔۔۔ قسط نمبر4
راولپنڈی سے مجھے ٹرانسفر کر کے مری بھیج دیا گیا۔ میرے عزیز دوست اور نامور شاعر احمد ظفر بھی پنڈی مری ٹرانسپورٹ میں کام کرتے تھے‘ انہیں بھی مری بھیج دیا گیا۔ ان کے ساتھ گھریلو تعلقات تھے اور وہ میرے بھائیوں کی طرح تھے۔ اس لئے اکٹھے مری جانے کی خوشی ہوئی۔ مری کی فضا میں بڑی شاعرانہ تھی۔ ہندوستان کے دور دراز سے آئے ہوئے باذوق رؤ ساہر روز اپنے بنگلوں میں کوئی ادبی محفل منعقد کرواتے تھے۔ آزاد زمانہ تھا‘ آزاد فضائیں تھیں اور کھل کر شاعری ہوئی تھی۔ اس زمانے کی شاعرانہ محفلوں کے مطابق ناؤ نوش کا انتظام بھی ساری رات چلتا تھا۔ ان محفلوں میں میں نے اچھے اور برے پینے والے بھی دیکھے اور یہ بھی جانا کہ شراب کے مفید پہلو کیا ہیں اور نقصان دہ پہلو کیا ہیں۔ میں نے وہاں انسانوں کے ظرف بھی پرکھے اور بہت کچھ سیکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں شاعری کو بھی بڑی جلا ملی کیونکہ تنقید بڑی صحیح بنیادوں پر ہوتی تھی۔
لازوال گیتوں کے خالق ،بے مثل شاعر قتیل شفائی کی آپ بیتی۔۔۔ قسط نمبر3 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مری کا یہ قیام اس لئے بھی یادگار ہے کہ یہاں مری کے آس پاس رہنے والے دوست بھی ملے جن میں پروفیسر کرم حیدری بھی شامل ہیں۔ وہ بزم کے بہت فعال سیکرٹری تھے اور وہاں کی ادبی سرگرمیاں انہی کے بل بوتے پر تھیں۔ فیض احمد فیض سے بھی میری پہلی ملاقات مری ہی میں ہوئی وہ وردی پہنچے ہوئے تھے اوران دنوں کرنل کے عہدے پر فائز تھے ۔ یہ جنگ کا یا جنگ سے ذرا بعد کا زمانہ تھا۔ وہاں پر کوئی تقریب تھی‘ وہ بھی اس سلسلے میں وہاں پر آئے ہوئے تھے۔ انہیں جب پتا چلا کہ کچھ شاعر یہاں پر آئے ہوئے ہیں تو انہیں بلوایا۔ میں نجانے کیسے پہلے ہی سے ان کے ذہن میں تھا اس لئے جب میر ا پتا چلا تو مجھے بھی بلوایا۔
مری میں ہر سال ایک بڑا آل انڈیا مشاعرہ ہوا کرتا تھا جس کیلئے سارے شاعر کھنچے ہوئے چلے آتے تھے۔ انہی دنوں ایک دلچسپ واقعہ ہوا۔ ہمارے ایک دوست الطاف مشہدی تھے جو اپنے زمانے کے بڑے نامور شاعر تھے اور جوش کے بعد ان کا مقام آتا تھا۔ خدا نے فن اور جسم کی تمام خوبیاں انہیں دے رکھی تھیں۔ لیکن انہوں نے شراب کو ساری برائیوں سمیت قبول کر رکھا تھا اور ان کی ایسی مجبوری بن چکی تھی کہ وہ کردار کے مقررہ معیاروں سے کچھ نیچے آگئے تھے۔ انہوں نے پلان کیا کہ آل انڈیا مشاعرہ کرنا ہے۔ چنانچہ انہوں نے مشاعر ے کا انتظام کیا اور دس دس روپے کے ٹکٹ رکھے۔ اس زمانے میں دس روپے بہت تھے۔ وہ شام کو باہر نکل جاتے اور جو رئیس نظر آتا اس سے اپنا تعارف کرواتے اور دو ‘ چار ‘ پانچ ٹکٹ فروخت کر دیتے۔ اس طرح انہوں نے بہت سار وپیہ جمع کیا۔ ہم ان کے شام کے ساتھی تھے۔ وہ یوں کہ انہیں معلوم تھا کہ ہمیں کس وقت چھٹی ہوتی ہے۔ وہ پہلے ہی سے ہمارے منتظر ہوتے تھے اور ہمیں ساتھ لے لیتے تھے۔ ہم بہت خوش تھے کہ وہ اتنے ٹھاٹھ کا مشاعرہ کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے ہندوستان کے تمام معروف شاعروں کو دعوت دے رکھی تھی اور جو کسی نے مطالبہ کیا کہا ٹھیک ہے۔
انہوں نے یہ مشاعرہ رمضان کے مہینے میں رکھا تھا۔ ناشتے یا کھانے کا انتظام تو درکنار جب مشاعرہ ختم ہوا اور سب شعراء ہوٹل میں واپس پہنچے تو دیکھا کہ الطاف صاحب کا کمرہ خالی ہے ۔ میں نے ہوٹل سے بسوں کے اڈے پر فون کیا اور پوچھا کہ میرے شاعر دوست الطاف صاحب کو دیکھا ہے تو پتا چلا کہ وہ ایک گھنٹہ ہوا پنڈی کی بس میں سوار ہو کر جا چکے ہیں۔ انہوں نے کسی کو کچھ نہ دیا اور سارے روپے خود سمیٹ کر چلے گئے۔
اس مشاعرے میں جو لوگ آئے ہوئے تھے ان سے بہت سے ایسے تھے جنہیں پہلے دیکھا ہوا بھی نہیں تھا، ہمارے دوست بنے ۔اس لئے کہ میں اوراحمد ظفر یہاں برسرِ روزگار تھے۔ کچھ کو کھانا کھلایا اور کچھ کو واپسی کا کرایہ بھی دیا۔ مشاعرے کا یہ تاریک پہلو میں نے پہلی بار دیکھا۔ اس کے بعد بھی ایسے کئی واقعات دیکھے جن کا بیان آگے آئے گا۔
میونسپلٹی میں ملازمت کا جو واقعہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ میرے پاس میرے والد کے ولایتی سوٹ موجود تھے۔ لوگ زیادہ تربھلہ کمپنی کے بنے ہوئے دیسی بوٹ پہنتے تھے لیکن میرے پاس تو باقاعدہ ولایتی بوٹ بھی ہوتے تھے۔ جب میں نے میونسپلٹی کی ملازمت کی ان دنوں تحصیل کا ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر ہی ایڈمنسٹریٹر بلدیہ بھی ہوا کرتا تھا ۔ ہمارا ایڈمنسٹریٹر راشی اور کرپٹ تھا۔ ہمارے وہاں ڈاکٹر جیمز بنی لال کی عیسائی فیملی تھی جن کے ساتھ ہمارے گھریلو تعلقات تھے۔ ان کے دونوں بیٹے میرے بھائی تھے اور بیٹیا ں بہنوں کی طرح تھیں۔ یہ ایڈمنسٹریٹر اس طرف سے گزرتا تھا اور اس نے فرض کر رکھا تھا کہ ہر عیسائی فیملی کرپٹ ہوتی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے ۔ اس نے مجھے وہاں آتے جاتے دیکھ کر رکھا تھا۔ ایک دن میں دفتر میں گیا تو آگے وہی بیٹھا ہوا تھا۔ میں دفتر میں جا کراپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ سیٹ بھی کیا تھی‘ جنگلا سا بنا ہوا تھا جس کے اندر ہم پیچھے تکیہ لگا کر نیچے بیٹھے ہوتے تھے۔
اس نے ہیڈ کلرک سے پوچھا کہ یہ کون ہے تو اس نے بتایا کہ محرر ہے ۔ اس نے مجھے اپنے پاس بلایا اور کہا ’’ یہ کپڑے کہاں سے پہنتے ہو ‘‘۔
میں نے کہا ’’جی میں گھر سے پہنتا ہوں‘‘
اس نے کہا ’’بائیس روپے تنخواہ میں کپڑے بنتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا ’’جی اس میں بائیس روپے کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ کپڑے میرے والد کے زمانے کے ہیں‘‘ اس نے میری وضاحت سنی ان سنی کردی اور حکم دیا ’’ یہاں ٹھیک طرح آیا کرو اور سر پر ٹوپی رکھا کرو‘‘
میں نے کہا’’ جی میرے سر میں درد ہو جاتا ہے اور میں ٹوپی نہیں پہن سکتا‘‘ اس نے مجھے گستاخ قرار دیتے ہوئے بہت سی لایعنی سی باتیں کہیں اور اس واقعہ کو ذہن میں رکھ لیا۔
میرے ساتھ وہاں دو اور محرر بھی تھے ۔ انہی دنوں مجھے پنڈی ایک مشاعرے کے لئے جانا پڑا۔ یہ میری زندگی کا پہلا پہلا مشاعرہ تھا۔ اس سے واپس لوٹا تو پتا چلا کہ ہم تینوں محرروں پر اسی ایڈمنسٹر یٹر نے غبن کا مقدمہ بنوادیا ہے ۔ ہم اس کیس میں کوئی مہینہ اور دو دن حوالات میں رہے۔ جب بھی ہم عدالت میں پیش ہوتے تو وہ مجھے کہتا ’’ دماغ ٹھیک ہوا ہے یا نہیں‘‘ اور اگلے ہفتے کی پیشی ڈال دیتا ۔ میں نے ہر بار جواب میں یہی کہا ک’’دماغ کا اس سے کیا تعلق ہے اور جو کیس بنایا گیا ہے وہ جھوٹا ہے‘‘
میرے کچھ دوست اخبار نویس تھے میں نے انہیں بلایا اور کہا ’’ یہ خود ہی مدعی ہے اور خود ہی منصف بھی‘‘ میرے ان دوستوں نے ایک وکیل سے مشورہ کیا۔ ویسے تو وکیل بھی اس کی عدالت میں جاتے ہوئے گھبراتے تھے لیکن ہمارے وکیل نے جرأت کر کے کہا ’’ ہم اس کیس کو کسی اور عدالت میں تبدیل کروانا چاہتے ہیں۔ چونکہ کیس کے مدعی آپ خود ہیں اس لئے ہمیں آپ سے انصاف کی توقع نہیں ‘‘ ساتھ ہی اس نے ایک درخواست پیش کی کہ ہمیں آج کی کارروائی اخبارات میں چھپوانے کی اجازت دی جائے۔ اس سے وہ ڈر گیا اور ہمیں ضمانت پر رہا کر دیا۔(جاری ہے)
لازوال گیتوں کے خالق ،بے مثل شاعر قتیل شفائی کی آپ بیتی۔۔۔ قسط نمبر5 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں