بدلتا ہوا وقت

بدلتا ہوا وقت
بدلتا ہوا وقت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وقت کبھی بھی ایک سا نہیں رہتا۔انسان کا اچھا وقت بھی گزر جاتا ہے اور برا وقت بھی ہمیشہ ساتھ نہیں رہتا۔عروج کے بعد زوال ہے تو دن کے بعد رات اور رات کے بعد دن،بہار کے بعد خزاں اور خزاں کے بعد بہار،انسان بچپن سے لیکر بڑھاپے تک تغیراتی عمل سے گزرتا ہے۔کبھی وہ اتنا کمزور اور نحیف ہوتا ہے کہ اسے دوسروں کے سہارے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔یہی نحیف اور کمزور انسان تغیراتی عمل سے گزرتا ہوا چٹان کی طرح مضبوط اور آہنی اعصاب کا مالک بن جاتا ہے۔انسان عمر بھر تبدیلی کے عمل سے گبھراتا ہے۔اگر وہ طاقتور اور توانا ہے تو وہ آنے والے کل کی فکر میں مبتلا ہے کہ کہیں اس کا عروج اور طاقت زوال پذیر نہ ہو جائے۔
یوں بھی زندگی اگر ساکن ،جامداور ساکت ہو جائے تو انسان مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔اگر ہم غورو فکر کریں تو واضع ہو گا کہ کائنات کا بنیادی فلسفہ اور اصول حرکت پر مبنی ہے۔ہر شئے میں حرکت ہے،اور حرکت ہی زندگی ہے۔ساکن اور بے حس صرف موت ہوتی ہے۔کارخانہ قدرت میں ہر شئے سورج،چاند، ستارے حرکت میں ہیں۔جب کوئی شئے ساکن اور جامد ہو جائے تو اسے موت کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا پرندہ جب زندہ ہوتا ہے وہ چیونٹیوں کو کھاتا ہے،مگر جب مر جاتا ہے تو وہی چیونٹیاں اسے کھا جاتی ہیں۔لوگ آتے اور جاتے رہتے ہیں،قومیں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں۔کبھی کسی علاقے پر ایک قوم آباد تھی،تو چند صدیوں بعد اس قوم کا نام و نشان مٹ گیا،اور اس کی جگہ نئی قوم آ کر حکمران بن گئی۔کبھی ہڑپہ اور موئن جو دڑو بھی آباد ہوا کرتا تھا۔آج ان کے صرف نشانات باقی ہیں۔
سکندر اعظم جو پوری دنیا کو فتح کرنے نکلا تھا آج اس کی قبر کا نام و نشان باقی نہیں.لیبیا کے سابق حکمران معمر قذافی کے اقتدار کا سورج کل تک پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔معمر قذافی پوری آن،بان اور شان کے ساتھ اقتدار پر براجمان تھا،دنیا نے دیکھا کہ اسی طاقت اور اقتدار کے سر چشمے معمر قذافی کو ایک ہجوم نے نشان عبرت بنا ڈالا۔
کل تک جنرل پرویز مشرف پورے جاہ و جلال کے ساتھ اقتدار پر قابض تھے،ایک منتخب وزیراعظم کو جلاوطنی پر مجبور کیا گیا،مگر آج وہی جلاوطن میاں نوازشریف پاکستان کا وزیراعظم ہے اور پرویز مشرف دربدر ہے۔ہم ترقی یافتہ ممالک پر نظر دوڑائیں تو وہ ممالک اپنے اپنے حالات و واقعات کے سبب آج اس مقام پر پہنچے ہیں۔کبھی وہ ممالک بھی جہالت،بیروزگاری اور اقرباپروری کے باعث ترقی پزیر تھے۔یہی قدرت کا قانون ہے کہ کبھی یورپ گٹھا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا اور بغداد روشن تھا۔ارسطو کی تاریخی حیثیت مسلمہ ہے وہ اپنے دور میں فہم و فراست کا منبہ تھا مگر اس کے پیش کئے گئے نظریات موجودہ دور سے مطابقت نہیں رکھتے۔ایک یونانی فلاسفر ھیراکلیتس نے کہا تھا ۔اس دنیا میں سوائے تبدیلی کے کوئی شئے مستقل نہیں۔ثبات صرف اللہ کی ذات کو ہے۔بقول شاعر
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید۔کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -