لالہ ء صحرائی: عجز و انکسار کا مرقع
جناب چودھری محمد صادق (لالہ ء صحرائی)کو مرحوم لکھتے ہوئے دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے۔ انہوں نے عمر بھر جس طرح مجھ سے شفقت فرمائی اور جس طرح زندگی کے ہر ہر مرحلے اور معاملے میں میری رہنمائی فرمائی، میں اسے کبھی بھلا نہ پاؤں گا۔ میں نے جب بھی ان سے اپنی کسی الجھن یا پریشانی کے بارے رہنمائی چاہی، انہوں نے بڑی محبت کے ساتھ میری مدد فرمائی۔ مجھے اس بات کا اظہار اور اعتراف کرنے میں ہرگز کوئی تامل نہیں کہ ان کی رائے ہمیشہ صائب ہوتی تھی۔ میرے کئی اور جاننے والے بھی اپنے مسائل کے حل کے لئے ان سے مدد لیتے تھے۔
میرا نہیں خیال کہ کبھی کوئی شخض ان سے رابطہ کرنے کے بعد کوئی تشنگی محسوس کرتا۔ ذاتی طور پر وہ کم آمیز تھے، لیکن سچائی پر کوئی کمپرومائز نہیں کرتے تھے۔ مجھے آج بھی ان کی باتوں سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ وہ فرماتے تھے کہ پریشانی کو اگر آدمی اپنے اوپر طاری کرلے تو اس میں اضافہ ہوتا ہے،لیکن خاموشی اختیار کرلے اور صبر و شکر کا دامن تھام لے تو اطمینان قلب نصیب ہوتا ہے۔ مشکل وقت میں اللہ کریم کی جانب رجوع کرنے سے انسان کا اندرون پُرسکون ہو جاتا ہے۔ان کے لبوں پر ہمیشہ ایک منفرد مسکراہٹ ہوتی۔
ان میں یہ حوصلہ تھا کہ اختلاف رائے برداشت کرتے۔ کسی کی بات کبھی قطع نہ فرماتے۔ سلام اور مصافحے میں پہل ان کی عادت تھی۔ میرا بچپن اور جوانی ان کی محبتوں کے سائے میں بسر ہوئی۔ اوائل عمر میں ان کا پُر شفقت چہرہ نظر میں ایسا جچا کہ پھر کوئی دوسرا سمایا نہیں۔ میری فکری سمت کا تعین ان کے فرمودات کے حوالے ہی سے ہوا ہے۔ اسلام اور نظریہء پاکستان کے ساتھ پختہ وابستگی ان کی صحبتوں کے طفیل ہے۔
لالہء صحرائی میرے نہایت پیارے ماموں تھے۔میرے نانا جان چودھری اللہ دین مرحوم اور نانی جان کی تربیت کا یہ اعجاز تھاکہ میرے دونوں ماموں اور میری تینوں خالاؤں کا ایک دوسرے کے ساتھ بے حد پیار تھا۔ گھر کا ماحول دینی تھا سب بے ریا، قناعت اور اللہ کریم کا شکر ادا کرنے والے لوگ تھے۔ میرے لئے یہ امر باعث اعزاز ہے کہ میرا تعلق ایسے نیک نام گھرانے سے ہے جس کے افراد لغزشوں سے بچ کر زندگی بسر کرنے والے تھے۔ بے شک یہ سب لوگ اللہ کریم کے برگزیدہ بندے تھے۔ میرا بچپن، پرورش، جوانی کے مہ و سال اس پاکیزہ ماحول میں بسر ہوئے۔
میں نے اپنے والدین اور ننھیال سے طمع، حرص، جھوٹ سے اجتناب اور شکر گزاری کا درس لیا۔محترم ماموں کے بارے میں یہ بات بلا تامل کہہ سکتا ہوں کہ وہ قائداعظمؒ، علامہ اقبالؒ اور مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ سے بڑی عقیدت رکھتے تھے۔ تحریک پاکستان کے دور میں وہ برٹش انڈین آرمی میں ملازم تھے۔ بایں ہمہ وہ اپنے نظریات میں بے باک تھے، حتیٰ کہ مسلم لیگ کے جلسوں میں فوجی وردی پہن کر شریک ہوتے۔ بالآخر وہ وقت آ گیا جب ان کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ برٹش آرمی سے ناتا توڑ کر تحریک پاکستان میں شامل ہو جائیں۔
پاکستان کے قیام کے بعد انہوں نے سیاست میں حصہ لیا۔ قبل ازیں وہ پٹھان کوٹ جا کر بانی جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے مل چکے تھے۔ انہوں نے اس بات کو محسوس کیا کہ جو موسمی پرندے تحریک پاکستان کو منطقی انجام تک پہنچتے دیکھ کر شریک کاروان ہوئے تھے، متروکہ املاک ہتھیانے اور پاکستان کو لا الٰہ الا اللہ کی بستی بنانے کی بجائے مفادات کے اسیر ہوکر اسلامیانِ پاکستان کی منزل کھوٹی کرنے کے درپے ہیں تو انہوں نے کلمہ ء حق کہنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔
جناب لالہ ء صحرائی ہمیشہ اللہ کریم کی رحمت و کرم کی آس لگائے رکھتے تھے۔ سچے اور کھرے پاکستانی کی طرح ہر وقت ملک و قوم کی بھلائی کے آرزومند رہتے۔ میں نے انہیں اس حوالے سے ہمیشہ فکر مند پایا۔ جب اغیار کے آلہ ء کار سیاست دان، ملک کی سالمیت کو اپنی ہوسِ اقتدار پر قربان کرنے کے درپے ہو گئے جس کے نتیجے میں مملکت خداداد پاکستان کا مشرقی بازو الگ کر دیا گیا تو سقوط ڈھاکہ کے صدمے سے بہت دلبرداشتہ ہوئے۔ کئی روز تک ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی رم جھم جاری رہی۔ دوسرا ایک اور واقعہ ان کی دل شکستی کا باعث بنا، یعنی جب ان کے نہایت عزیز دوست محمد صلاح الدین ایڈیٹر تکبیر کراچی ایک لسانی جماعت کی درندگی کا شکار ہو گئے۔ یہی جماعت حکم محمد سعید دہلوی کے خونِ ناحق کی بھی ذمہ دار تھی۔ اسی طرح بانی جماعت اسلامی، سید مودودیؒ کے سانحہ ء ارتحال نے بھی انہیں رنجیدہ کر ڈالا۔
مولانا مودودیؒ کی نماز جنازہ میں شرکت کے لئے اپنی ناسازی طبع کے باوجود لاہور گئے۔ان کی زندگی میں قیام پاکستان کے بعد دوسرا موقع باعث صد مسرت وہ تھا جب وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کئے اور پاکستان کو ایٹمی ممالک کی صف میں لاکھڑا کیا۔ انہوں نے اس حوالے سے کئی نظمیں لکھیں جو نوائے وقت کے صفحات کی زینت بنتی رہیں۔
انہیں کلام اقبالؒ سے عشق تھا۔ علامہ کی مشہور رباعی:
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روزِ محشر عذر ہائے من پذیر
ور تو می بینی حسابم ناگزیر
از نگاہِ مصطفےؐ پنہاں بگیر
کا ذکر بڑے ذوق شوق کے ساتھ کیا کرتے۔ جب 1970ء کے دور میں ایک سیاسی جماعت ”روٹی، کپڑا اور مکان“ کا پر فریب نعرہ لگا رہی تھی تو وہ اکثر علامہؒ کا شعر دہراتے:
دل کی آزادی شہنشاہی شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم؟
تقسیم برصغیر کے دوران میں جو دلخراش واقعات پیش آئے، خصوصاً خون مسلم کی ارزانی اور انسانیت سوز واقعات نے ا ہل ِ ایمان کو رنجیدہ کر دیا۔چودھری محمد صادق بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔انہوں نے ان واقعات کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا اور کئی شاہکار مضامین تخلیق کئے۔ انہوں نے اپنے قلم کو نثر کے میدان میں خوب دوڑایا،پھر جب تائید ایزدی سے انہیں نعت گوئی کا شرف حاصل ہوا تو انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ بقول ڈاکٹر عاصی کرنالی ؒمرحوم: لالہئ صحرائی، نعت گوئی کے میدان میں برسوں بعد آئے، لیکن مختصر عرصے ہی میں اپنے ہم عصروں سے کوسوں آگے نکل گئے۔عاصی کرنالی نے اپنے ایک شعر کے ذریعے جناب لالہئ صحرائی کو یوں نذرانہ عقیدت پیش کیا:
گل زارِ مدینہ کی رعنائی و زیبائی
منزل ہے یہی تیری اے لالہئ صحرائی
ڈاکٹر عاصی کرنالی فرماتے تھے کہ انہوں نے ہی لالہئ صحرائی کو غزوات نبویؐ کو نظم بند کرنے کی ترغیب دی تھی اور جناب لالہئ صحرائی نے کمال مہارت سے غزوات رحمتہ اللعالمین تصنیف کر کے بہت بڑا کام کیا، جو اُردو ادب کے دامن میں گراں قدر سرمایہ ہے۔ عشق ِ رسولؐ کو وہ اپنی گراں بہا متاعِ حیات قرار دیا کرتے تھے۔ نثر کے میدان میں برسوں رشحاتِ قلم کا انبار لگانے کے بعد نعت نگاری کے شعبے میں بھی وہ کام کر گئے، جو ان کا نصیبا جگا دے گا۔ وہ ایک دلی اور پُرخلوص جذبے اور لگن کے ساتھ نعت لکھتے تھے:
نعت کہنے سے سکوں ملتا ہے مجھ کو ورنہ
تیری مدحت کو فقط تیرا خدا کافی ہے
جناب لالہئ صحرائی کی نعت اور نثر نگاری دونوں میں انفرادیت اور جدت پائی جاتی ہے۔ ان کے ہاں وسیع ذخیرہئ الفاظ ہے۔ ان کی نثر شستہ و رواں ہے۔ ان کی تحریریں برجستہ اور بے تکلف ہیں۔ان کا تعلق گو علمی حوالے سے جہانیاں جیسے کم معروف قصبے سے تھا،لیکن محض اپنی صلاحیتوں کی بنا پر ملک کے کونے کونے میں پہچانے جاتے ہیں اور سچی بات تو یہ ہے کہ جہانیاں کو ان کی وجہ سے پہچانا گیا کہ گودڑیوں میں لعل ہوتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب جناب احمد ندیم قاسمی مرحوم روزنامہ ”امروز“ میں ”حرف و حکایت“ کے نام سے کالم لکھتے تھے تو انہوں نے مقامی مسائل کا ذکر ”لالہئ صحرائی کے شہر سے“ کیا تو قاسمی صاحب نے بطورِ خاص اپنے کالم میں جہانیاں اور جناب لالہئ صحرائی کے لئے محبت واحترام کا اظہار کیا۔
جناب لالہئ صحرائی کے فن کا احاطہ ایک مختصر سے مضمون میں ممکن نہیں ہے۔ ان کی تصانیف سے ان کی شخصیت کے اجلے پن کی جھلک واضح اور ان کے خیالات کی پاکیزہ کرنیں چھن چھن کر باہر آتی ہیں۔ وہ درست سمت میں صحیح محنت کے قائل تھے۔ نتائج کے لئے فکر مندی کی بجائے معاملہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے سپرد کرنا بہتر سمجھتے تھے۔انہیں یقین تھا کہ اللہ کریم دُنیا میں بھی بندوں کی محنتیں ضائع نہیں کرتے۔اگر اخلاص پر مبنی جدوجہد دنیاوی لحاظ سے ثمربار نہ بھی ہو تو آخرت میں اس کا اجر ضرور ملتا ہے۔ رضائے الٰہی کے لئے یہ اقرار شافی ہے کہ ”مَیں اللہ کو رب مان کر،اسلام کو دین مان کر اور حضرت محمدؐ کو نبی مان کرراضی ہو گیا ہے“۔ لالہئ صحرائی کی زندگی سے یہ سبق ملتا ہے کہ بندگی میں فلاح ہے۔ مجھے آج ان کی بہت سی باتیں پھر سے یاد آ رہی ہیں۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ رب العالمین کے فیصلے اور قضا و قدر اٹل ہے۔ جب اللہ کریم کسی کو فلاح کی راہ پر گامزن فرما دیں تو اس کا اعزاز کوئی چھین نہیں سکتا۔صبر و استقامت سے سنگلاخ زمین سے بھی کشائش کے پھول کھل سکتے ہیں۔دِل اور دُنیا کی تسخیر کردار کی سچی عظمت سے ممکن ہے۔ بہرحال اللہ رب العزت کا شکر گزار بن کر رہنا اصل زندگی ہے۔
میری روزانہ ان سے ملاقات رہتی تھی۔ مجھے گمان بھی نہ تھا کہ ان کی صحت تشویشناک ہے، نہ یہ توقع تھی کہ اجل ان کی تاک میں کھڑی ہے، وہ اچانک 7جولائی2000ء کو80برس کی عمر میں اپنے خالق کے حضور چلے گئے۔مَیں آج بھی پریشانی کے ہر لمحے میں اپنے سر پر ان کے شفقت بھرے ہاتھوں کا لمس محسوس کرتا ہوں۔میری نگاہوں میں وہ منظر آج بھی محفوظ ہے جب گورنمنٹ ہائی سکول جہانیاں کے وسیع و عریض گراؤنڈ میں ان کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔گراؤنڈ میں ان کے اعزا اور احباب کا ایک جم غفیر تھا۔ ان سے محبت و عقیدت رکھنے والے ملک کے طول و عرض آئے تھے۔ملک کے نامور صحافی، ادیب اور وابستگانِ سیاست اپنے محب کے آخری دیدار کے لئے جمع تھے۔ ہر شے فانی ہے، باقی رہے گا میرے عظمت اور جلال والے رب کا چہرہ۔