بعض پڑھے لکھے حضرات ویڈیو کو جعلی قرار دینے میں ایک منٹ بھی نہیں لگایا

بعض پڑھے لکھے حضرات ویڈیو کو جعلی قرار دینے میں ایک منٹ بھی نہیں لگایا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ: قدرت اللہ چودھری



جس آڈیو ڈیو کی تفصیلات مریم نواز شریف نے اپنی پریس کانفرنس میں بیان کی ہیں ان پر بعض تبصرے بڑے دلچسپ ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر کہا جارہا ہے کہ ہائی کورٹ کے سابق جج ملک قیوم کے فیصلے کے بارے میں جو وڈیو سامنے آئی تھی۔ مریم کو چاہئے تھا اس کا تذکرہ بھی کرتیں، ویسے اگر اس وڈیو کی موجودہ حالات میں اب تک کوئی افادیت ہے تو اس کا تذکرہ کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں، لیکن تازہ ترین وڈیو تو اس فیصلے کے متعلق ہے جس کے تحت قیدی ابھی سزا بھگت رہا ہے اور اس کی اپیلیں اعلیٰ عدالتوں میں چل رہی ہیں۔ ایسے میں اگر متاثرہ فریق نے یہ وڈیو اپنے موقف کے حق میں عدالت کے روبرو پیش کردی تو پھر ایوان عدل میں ہی یہ فیصلہ بھی ہو جائے گا کہ یہ اصلی ہے یا جعلی، ویسے  بعض حضرات نے تو اسے جعلی ثابت کرنے میں ایک منٹ کی تاخیر نہیں کی، ادھر مریم کی پریس کانفرنس ختم ہوئی اور ادھر انہیں معلوم ہوگیا کہ یہ وڈیو جعلی ہے۔ وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے البتہ اس وڈیو کے فرانزک ٹیسٹ کا مطالبہ کیا ہے، ویسے اگر یہ عدالت میں پیش کردی گئی تو پھر یہ فاضل عدالت کا اختیار ہوگا کہ وہ اسے کس زمرے میں رکھتی ہے، جعلی میں یا اصلی میں، لیکن اتنا ضروری ہے کہ جس موقع پر یہ وڈیو سامنے آئی اس نے لہروں میں بڑا ارتعاش پیدا کردیا ہے، اگر یہ جعلی ہوتی، یا اس میں سرے سے کچھ نہ ہوتا تو اتنے بڑے بڑے لوگ باجماعت اس پر تبصرہ کرنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش نہ کر رہے ہوتے۔ اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس جعلی وڈیو میں بھی کوئی نہ کوئی بات ایسی ہے جو اصل حالات کی جانب رہنمائی کرتی ہے، ملک قیوم کی وڈیو تو اس وقت سامنے آئی تھی جب  وہ جج نہیں رہے تھے، لیکن یہ وڈیو ایک ایسے جج صاحب کے متعلق ہے جو آج بھی کرسی عدل پر بیٹھ کر زندہ انسانوں کی قسمتوں کے فیصلے کر رہے ہیں، اور نہیں کہا جاسکتا کہ اور کس کس مقدمے میں انہیں اس طرح کے ناگفتہ بہ حالات سے گزرنا  پڑا ہوگا،  ویسے ان کی ترقی کے امکان بھی بڑے روشن ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے بھی ایک جج تھے جو چیف جسٹس بننے والے تھے لیکن انہیں راستے سے ہٹا دیا گیا۔ ان کا منصب سنبھالنا یوں یقینی تھا کہ اعلیٰ عدلیہ میں سنیارٹی کے اصول کے تحت ہی چیف جسٹس کا تقرر ہوتا ہے وہ وقت تو اب رہا نہیں جب لاہور ہائی کورٹ کی ایک خاتون جج کو جو سینئر  موسٹ تھیں چیف جسٹس کے منصب پر فائز نہ ہونے دیا گیا اور لطف کی بات یہ ہے کہ ان کی راہ میں رکاوٹ بھی ایک ایسے برادر جج تھے جو پیپلز پارٹی کی سیاست کے زمانے میں ان کے ساتھ ہی سرگرم عمل تھے، لیکن جب خاتون جج کے چیف جسٹس بننے کا وقت آیا تووہ اس وقت کے صدر پرویز مشرف کے حامی ہوگئے۔ سنیارٹی بھی ایک طرف رہ گئی اور پیپلز پارٹی کی سیاست بھی،  پھر وہ خود چیف جسٹس بن گئے۔ خاتون جج نے اپنی کتاب میں اس واقع کا تفصیلی ذکر کیا ہے اور ذرا مختلف انداز میں ان کا کچھ تذکرہ حامد خان نے بھی اپنی کتاب میں کیا ہے اور اپنی پارٹی کے ایک نوجوان رہنما کی سرگرمیوں کو اجاگرکیا ہے۔ اگرچہ پچھلے دنوں انہوں نے ایک انٹرویو میں یہ بات واضح کر دی تھی کہ ان کا روئے سخن کدھر ہے، لیکن ہم احتراماً اس کا تذکرہ نہیں کرتے۔ ایک ماہر قاون سے مریم نواز کی جاری کردہ وڈیو کے بارے میں بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ اس کے مندرجات ایسے ہیں کہ اگر یہ عدالت میں اپنے دفاع میں پیش کر دی جائے تو نوازشریف کو ریلیف مل سکتا ہے۔ تاہم بعض لوگوں نے جنہوں نے فرض کر رکھا ہے کہ سابق وزیراعظم کے خلاف جتنے بھی الزامات ہیں سب درست ہیں، وہ کسی عدالت میں جائیں نہ جائیں انہیں درست ہی مانا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ گھٹیا حرکت ہے،  ایک وڈیو ابھی چند روز پہلے بھی منظر عام پر آئی تھی جو اس چینل پر چلی جو ان صاحب کی ملکیت ہے جو ان بہت سارے مشیروں میں شامل ہیں جو سارا دن وزیراعظم کے لئے ”ون لائنر“ سوچتے رہتے ہیں اور پھر رات کو جاری کر دیتے ہیں، یہ جدید میڈیا ٹیکنیک کے ماہرین ہیں ان میں سے ایک نے اگر اپنے چینل پر یہ وڈیو چلا دی تو وزیراعظم نے برا منا لیا، اور انہیں ”حلقہ احباب“ سے نکال دیا، اب پتہ نہیں کہ معافی تلافی ہوئی ہے یا نہیں، کیونکہ ایسے الزامات میں ماضی میں جن لوگوں کو وزارتوں یا دوسرے عہدوں سے ہاتھ دھونے پڑے ان کو بھی اب معافیاں ملنا شروع ہوگئی ہیں اور بعض کو تو وزارتیں بھی واپس مل گئی ہیں۔ اس وڈیو کا منظر عام پر آنا تھا کہ صاحب وڈیو کی پھرتیاں دیکھنے والی تھیں وہ معمول سے کچھ زیادہ ہی سرگرم نظرآئے،  یہاں تک کہ وڈیو میں دیکھی جانے والی  خاتون اور اس کے شوہر کا معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں ضمانت کے لئے پیش ہوا تو فاضل عدالت نے یہ ریمارکس دیئے کہ اگر کسی کے خلاف وڈیو کسی چینل پر چل گئی ہے تو اس کا یہ مطلب کہاں سے نکل آیا کہ  مقدمے میں ملوث فریق ضمانت کا مستحق نہیں رہا۔ چنانچہ دونوں میاں بیوی ضمانت پر رہا ہوگئے، اس خاتون نے بھی کہا تھا کہ اس کے پاس اور بھی وڈیوز ہیں اگر یہ سلسلہ چل پڑا ہے تو دیکھیں کہاں تک پہنچتا ہے۔ اس کا کوئی نتیجہ نکلے نہ نکلے، صاحبان منصب کو چاہئے کہ وہ محتاط ہو جائیں کیونکہ آج کے منکر نکیروں کے پاس وڈیو کیمرے بھی ہوتے ہیں اور صاحبان عدالت کا تو فرض ہے کہ وہ انصاف کا ترازو مضبوطی سے پکڑیں اور کسی گروہ یا فرد کی دشمنی انہیں اس بات پر مائل نہ کرے کہ وہ انصاف کا خون کرنے لگیں۔
وڈیو

مزید :

تجزیہ -