سارک سے وابستہ توقعات؟
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان سارک تنظیم کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے اور اس کے چارٹر کے اصولوں اور مقاصد پر قائم ہے پاکستان نے ہمیشہ اس علاقائی فورم کو خود مختاری اور مساوات کے اصول پر مبنی باہمی تعاون کے لئے ایک متحرک تنظیم بنانے کی کوشش کی ہے سارک رکن ملکوں کی معیشتوں کو مضبوط بنانے اور مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کی بے پناہ صلاحیت رکھتی ہے تنظیم کو خطے کی معاشی، ثقافتی اور معاشرتی نمو کے لئے رکن ملکوں کے درمیان رابطوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے ان خیالات کا اظہار ممتاز صنعت کار رہنما افتخار علی ملک کے سارک چیمبر آف کامرس کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے موقع پر اپنے پیغام میں کیا جو دو سال تک اس منصب پر قائم رہیں گے۔ یہ عہدہ رکن ملکوں کے درمیان تقسیم ہوتا رہتا ہے۔
وزیراعظم نے سارک تنظیم کے اصولوں اور مقاصد پر کاربند رہنے اور رکن ملکوں کے درمیان روابط بہتر بنانے کی جو بات کی ہے اصولاً تو اس سے کسی کو اختلاف نہیں اور زبانی کلامی یہ عہد اچھا بھی لگتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جن مقاصد کو پیش نظر رکھ کر یہ تنظیم بنائی گئی تھی کیا وہ حاصل بھی ہوئے اور اگر نہیں ہوئے تو یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ایسا کیوں نہ ہو سکا؟ پاکستان اور بھارت اس تنظیم کے دو بڑے ارکان ہیں، باقی رکن ملک کسی نہ کسی انداز میں بھارت کے زیر اثر ہیں بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ دونوں بڑے ملکوں کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے اونچ نیچ کا شکار رہے ہیں، جن تعلقات کو خوشگوار اور اچھا کہا جا سکتا ہے ان کا عرصہ تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ البتہ اگر یہ کہا جائے کہ دونوں ملکوں میں کشیدگی کی سطح کبھی کم ہوتی ہے اور کبھی زیادہ، تو غلط نہ ہو گا معمول کے تعلقات الشاذ کالمعدوم کی ذیل میں آتے ہیں آج کل بھی کشیدگی عروج پر ہے۔ کشمیر کی کنٹرول لائن پر بھارت روزانہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں کرتا ہے، قریبی دیہات میں مستقل خوف و ہراس ہے، نہتے لوگوں پر گولہ باری کرکے شہریوں کو خوفزدہ کیا جاتا ہے شہادتیں بھی ہوتی ہیں کئی سال سے تنظیم کا سربراہ اجلاس نہیں ہو سکا جو سال میں ایک بار ہونا ہوتا ہے، پاکستان میں ہونے والا اجلاس، جس کی تیاریاں مکمل تھیں اور بھاری اخراجات کرکے مہمانوں کے استقبال کا اہتمام کیا گیا تھا کہ عین آخری وقت پر ملتوی کرنا پڑا چارٹر کے مطابق جس ملک میں اس سربراہ اجلاس کا انعقاد طے ہوتا ہے جب تک وہاں اجلاس ہو نہ جائے کسی دوسرے ملک میں اجلاس نہیں ہو سکتا یہی وجہ ہے کہ اب تک سربراہ اجلاس ہی نہیں ہوا۔ پچھلے دنوں ایک آن لائن اجلاس ہوا تھا جس میں تمام رکن ملکوں کے سربراہانِ مملکت یا حکومت شریک ہوئے لیکن پاکستان کی نمائندگی ایک معاونِ خصوصی نے کی۔ اس سے تنظیم کی اہمیت اور حیثیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، پاکستان نے اس موقع پر کشمیر میں بھارتی مظالم کا ذکر چھیڑا تو مودی منہ بسورنے لگے، یہ آن لائن اجلاس تھا اگر ارکان بنفسِ نفیس شریک ہوتے تو معلوم نہیں کیا عالم ہوتا اس کا ایک مشاہدہ ہم 2004ء میں کھٹمنڈو میں کر چکے ہیں جب پاکستان کے صدر پرویز مشرف اور بھارت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی شریک تھے۔ دونوں کے درمیان سلام دعا تک نہ ہوئی اور کوشش کی جاتی رہی کہ آنکھیں بھی چار نہ ہوں کہ لحاظ داری میں کہیں آنکھوں آنکھوں میں بات دل تک نہ پہنچ جائے اور دونوں رہنماؤں کو ہاتھ ملانا پڑ جائے اس عالم میں جب پرویز مشرف اپنا خطاب کر چکے تو سیدھے واجپائی کی کرسی کی جانب گئے اور انہوں نے بیٹھے بیٹھے نیم دلانہ مصافحہ کیا، گھٹنوں کی تکلیف کے باعث وہ اٹھ نہیں سکتے تھے کچھ ایسی ہی کیفیت شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر نریندر مودی اور عمران خان کے درمیان رہی، اب جہاں حالت یہ ہو کہ سارک کے دو اہم ارکان کے لیڈر ایک دوسرے سے مصافحہ کے بھی روادار نہ ہوں وہاں تنظیم سے کسی تعاون کے ٹریک پر چلنے کی امید رکھنا خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ دونوں ملکوں کی یہ کشیدگی باقی ملکوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے اور بھارت کوشش کرتا ہے کہ ان ملکوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا رہے اور یہ تمام ملک سارک میں اس کی ہاں میں ہاں ملائیں۔ اس موقع پر یہ ذکر بے جا نہ ہوگا کہ سری لنکا پاکستان سے مشّاق تربیتی طیارے خریدنا چاہتا تھا بھارت نے اس پر دباؤ ڈالا کہ ایسا نہ کرے۔ حالانکہ رکن ملکوں کے درمیان ترجیحی بنیادوں پر تجارت سارک تنظیم کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے۔ سری لنکا کو داد دینی چاہیے کہ سخت بھارتی دباؤ کے باوجود وہ اپنے فیصلے پر قائم رہا اور اس نے پاکستان کو طیاروں کا آرڈر دے دیا۔ بے اعتمادی کی اس گھمبیر فضا میں سارک ممالک باہمی تجارت کیسے بڑھائیں گے اور قریبی روابط کیسے رکھیں گے اس سوال کا جواب تلاش کرنا چاہیے۔ خود پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے۔ ایک زمانے میں بھارت سے تازہ سبزیاں پاکستان میں درآمد ہو رہی تھیں کہ اچانک اس پر اعتراضات وارد ہونے لگے۔ گوشت کے لئے زندہ بکرے بھی درآمد کئے جا رہے تھے۔ سرخ فیتے کے کرشمات کے باعث یہ بکرے سرحد پر کھڑے کھڑے سوکھنے لگے اور شاید بیوپاری واپس لے گئے اسی طرح بہت سی جلد خراب ہونے والی سبزیاں بھی اسی حشر سے دوچار ہوئیں۔ بھارت میں ٹماٹر ٹکے ٹوکری تھے اور پاکستان میں انتہائی مہنگے، ٹماٹروں کے یہ ٹرک بھی کھڑے کھڑے گل سڑ گئے لیکن اناؤں کے بتوں کو ٹھیس نہ پہنچی۔ادویات کا معاملہ تو ابھی تازہ بلکہ کل کی بات ہے۔ وزیراعظم نے بھارت سے زندگی بچانے والی ادویات درآمدکرنے کی اجازت دی تھی لیکن یار لوگوں نے اس کے پردے میں بہت سی ایسی ادویات بھی منگوا لیں جن کا بڑا سٹاک پہلے سے ملک کے اندر موجود تھا۔ آج تک یہ عقدہ نہیں کھلا کہ یہ کارنامہ کرنے والے کون تھے اور ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ایسے میں باہمی تجارت کیسے فروغ پائے گی؟
بھارتی تاجروں نے پاکستان کو برآمدات کے لئے ایک بالواسطہ طریقہ بھی اختیار کیا ہوا ہے۔ جو کمپنیاں یہ سامان پاکستان کو برآمد کرتی ہیں انہوں نے دبئی اور لندن وغیرہ میں دفاتر بنا رکھے ہیں اور بھارتی مصنوعات تیسرے ملک کے راستے پاکستان آتی ہیں۔سمگلنگ بھی ہوتی ہے اور لاہور میں بہت سی جگہوں پر یہ سمگل شدہ اشیاء عام مل جاتی ہیں جب براہِ راست اور قانونی تجارت پر شکوک و شبہات کے سائے پھیلتے رہیں اور کروڑوں کے آرڈر اچانک منسوخ ہو جائیں تو درآمد کنندگان بھی متاثر ہوتے ہیں اور برآمد کنندگان بھی۔ اس لئے سارک کے یہ دونوں ملک تجارت کا دائرہ وسیع نہیں کر سکتے۔ ایسے میں سارک چیمبر اگرچہ اپنی سی کوششیں کرتا رہتا ہے لیکن جب تک تعلقات معمول کے مطابق نہ ہوں تجارت ہموار طریقے سے نہیں ہو سکتی۔ جب کشیدگی زیادہ بڑھتی ہے تو تاجر بھی تقسیم ہو جاتے ہیں ایک حلقہ تجارت کو سیاست سے پاک رکھنا چاہتا ہے اور دوسرا دشمن کے ساتھ تجارت کو ممنوع خیال کرتا ہے ایسے میں تعلقات کی مضبوطی خواب و خیال نہیں ہو گی تو اور کیا ہو گی؟
دنیا میں بہت سی علاقائی تنظیمیں سارک کے بعد وجود میں آئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے انتہائی اہم ہو گئیں۔ جن خطوں میں یہ قائم ہوئیں وہاں ملکوں کے باہمی تعلقات مضبوط بھی ہوئے اور تجارتی روابط بھی بڑھے لیکن یاد نہیں پڑتا کہ سارک نے 35سال میں کوئی ایسا کارنامہ انجام دیا ہو جس کا ذکر فخر کے ساتھ کیا جا سکے، بھارت نے تنظیم کو یرغمال بنا رکھا ہے اور اس کے سائے علاقائی تعاون کے خواب کو شرمندۂ تعبیر ہی نہیں ہونے دیتے۔ وزیراعظم عمران خان نے سارک چارٹر پر قائم رہنے کا اعلان کیا ہے لیکن محض ایک اعلان سے کیا یہ تنظیم تعاون کی شاہراہ پر فراٹے بھرنا شروع کر دے گی؟ بالکل نہیں، جب تک پاک بھارت تعلقات معمول پر نہیں آئیں گے سارک کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں اور یہ کہنا مشکل ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کب ٹھیک ہوں گے؟ ہوں گے بھی یا نہیں، ایسے میں سارک سے امیدیں وابستہ کرنا محض الفاظ کا ہیرپھیر ہوگا اس سے زیادہ کچھ نہیں