صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
دو تین ہفتے پہلے جب اچانک کوہ قافیوں (ق لیگ والوں) کے چہروں پر رونقیں نظر آنے لگیں تو پہلا خیال یہی آیا کہ کہیں سے شائد مثبت اشارے ملے ہیں۔ پھر کچھ اشارے خود ق لیگ (جو اب ترقی کرتے کرتے گ لیگ ہو گئی ہے۔ گ معنی گجرات) کے احباب نے دینا شروع کر دیئے۔ ایک خاتون ایم پی اے کے حوالے سے بات پھیل گئی کہ مرکزی قائدین نے انہیں متحرک ہونے اور عوام سے رابطے بڑھانے کا حکم دیا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ اب ہمارا وقت آنے والا ہے۔ پھر اچانک شور برپا ہوا کہ ق لیگ نے وزیر اعظم کے عشایئے میں شرکت سے انکار کر دیا ہے تاہم یقین دلایا ہے کہ بجٹ کے حق میں ووٹ دیں گے اور دیا بھی۔ اس سے پہلے بار بار سابق وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی موجودہ وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار سے ملاقاتیں کر کے حمایت جاری رکھنے کے اعلانات کر رہے تھے تب بھی یار لوگوں کو شک ہو رہا تھا کہ کوئی بات ہے ضرور……
یہ جو تم اتنا مسکرا رہے ہو
کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو
اس صورتحال میں ”ماہرین“ نے حساب کتاب لگانا شروع کر دیا کہ حکومت کے پاس پنجاب اسمبلی میں کل 191 ووٹ ہیں جن میں سے دس ق لیگ کے ہیں اپوزیشن کے پاس کل 174 ووٹ ہیں جن میں مسلم لیگ ن کے اور پیپلزپارٹی کے سات ووٹ ہیں۔ اگر ق لیگ ناراض ہو کر یا سیاسی حکمت عملی کے تحت حکومت کی حمایت ترک کر کے اپوزیشن کے ساتھ مل جائے تو حکومت کے پاس 181 ووٹ رہ جائیں گے جبکہ اپوزیشن کے 184 ہو جائیں گے۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے۔ حکومت تبدیل ہو جائے گی۔ ان دس ووٹوں کی بنیاد پر مسلم لیگ ق وزارت اعلیٰ بھی حاصل کر سکتی ہے۔ یہ خطرہ ظاہر ہے کہ حکمرانوں کی سمجھ میں بھی آتا ہے۔ چنانچہ وہ بھی اپنا انتظام مکمل رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مارچ میں بھی اپوزیشن کے سات ارکان پنجاب اسمبلی نے وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم سے ملاقاتیں کی تھیں۔ مسلم لیگ ن کے چھ ارکان کو الگ پارٹی رکنیت معطل کر کے اظہار وجوہ کے نوٹس دے دیئے گئے تھے۔ ان ملاقاتوں پر بہت شور مچا تھا۔ کہا گیا کہ ن لیگ میں دراڑیں پڑ گئیں۔ پارٹی قیادت نے درج بالا اقدام سے اپنا بھرم قائم رکھا۔ ان ارکان کی طرف سے بھی کہا گیا کہ ان کے علاقوں میں ترقیاتی فنڈز بند ہیں۔ جن سے ووٹ لئے ہیں وہ کام چاہتے ہیں نہ ہونے کی وجہ سے وہ نمائندوں کو گالیاں دیتے ہیں اور آئندہ انتخابات میں ووٹ نہیں دیں گے اس لئے انہوں نے ملاقات کر کے ترقیاتی فنڈز مانگے پارٹی نہیں چھوڑی۔ ان سب کو بقول نشاط احمد ڈاہا چھ چھ کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈز دیئے گئے۔ اب کے پھر اسی ماہ 7 اپوزیشن ارکان نے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کی ہے تو یہ ذرا مختلف ماحول میں کی گئی ہے۔ پہلے ملاقات کرنے والے ارکان کا جائزہ لے لیا جائے۔ بہت اہم نام شرقپور شریف (ضلع شیخوپورہ) کی روحانی شخصیت گدی نشین پیر جلیل احمد شرقپوری کا ہے جو خاندانی طور پر پرانے مسلم لیگی ہیں۔ وہ ضلع ناظم رہے وہ 2002ء میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے 2018ء کے الیکشن میں صوبائی حلقہ 139 سے ایم پی اے منتخب ہوئے۔ اسی ضلع میں پیدا ہونے والے اشرف علی گوجرانوالہ کی نشست سے ایم پی اے ہیں وہ بھی پہلے ضلع ناظم رہے ہیں پی پی 93 گوجرانوالہ سے وہ دوسری مرتبہ ایم پی ا ے منتخب ہوئے ہیں ان کا سیاسی کیریئر بھی مسلم لیگ ن کے ساتھ ہی رہا ہے۔ گوجرانوالہ کے نواحی ضلع نارووال سے متنخب ایم پی اے مولانا غیاث بھی دینی شخصیت ہیں وہ بھی تیسری بار ایم پی اے بنے ہیں ان کا حلقہ پی پی 133 ہے وہ بڑے دبنگ رہنما سمجھے جاتے ہیں۔ اس گروپ میں ضلع خانیوال کے دو ایم پی اے بھی شامل ہیں ایک تو خانیوال شہر سے حلقہ پی پی 206 سے ایم پی اے ہیں۔ وہ تحصیل ناظم رہے اور مسلسل تیسری بار رکن پنجاب اسمبلی بنے ہیں۔ انہوں نے 51 ہزار سے زیادہ ووٹ لئ
ے۔ وہ بھی پرانے مسلم لیگی ہیں۔ ان کے بھائی ظہور احمد ڈاہا بھی ایم پی اے رہے۔ ان کے عزیز عرفان احمد ڈاہا چار بار ایم پی اے بنے جبکہ ان کے چچا آفتاب احمد ڈاہا چار بار ایم این اے منتخب ہوئے دوسرے ایم پی اے نوجوان فیصل خان نیازی ہیں وہ 2013ء میں تحریک انصاف کے امیدوار تھے مگر تھوڑے مارجن سے ہار گئے تھے 2018ء کے انتخابات میں انہیں پی ٹی آئی کا ٹکٹ نہ ملا تو وہ ناراض ہو گئے۔ مسلم لیگ کے سدا بہار ایم این اے چودھری افتخار نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے۔ ٹکٹ ملا اور وہ پی پی 209 خانیوال سے جیت گئے۔ وہ افتخار چودھری ایم این اے گروپ میں ہیں جن کا کہنا ہے کہ کوئی فارورڈ بلاک نہیں بن رہا۔ ان کا گروپ کسی فارورڈ بلاک کا حصہ بھی نہیں بنے گا۔ سردار اظہر عباس چانڈیو کا تعلق مظفر گڑھ سے ہے وہ کوئی سیاسی پس منظر نہیں رکھتے۔ 2018ء کے انتخابات سے چند روز پہلے ایک مقامی مسلم لیگی رہنما کی سفارش پر انہیں ٹکٹ مل گیا۔
ان کی چانڈیو برادری کے ووٹ کافی ہیں وہ حلقہ پی پی 269 سے منتخب ہو گئے۔ وہ بھی وزیر اعلیٰ سے ملاقات کرنے والوں میں شامل تھے۔ پیپلزپارٹی کے ایم پی اے غضنفر لنگاہ مارچ میں بھی وزیر اعلیٰ سے ملنے والوں میں شامل تھے تاہم انہوں نے پارٹی قیادت کو یقین دلا دیا تھا کہ وہ پارٹی اور قیادت کے ساتھ ہیں علاقائی گروپوں میں صرف ایک تبدیلی ہوئی۔ مارچ میں ملاقات کرنے والوں میں بہاولنگر سے ایم پی اے ارشد علی شامل تھے۔ اس بار ان کی بجائے شرقپور سے میاں جلیل احمد شامل تھے۔ بہاولنگر میں مسلم لیگ ق کے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کا خاصا اثر و رسوخ ہے۔ اب شائد انہوں نے دلچسپی نہیں لی کہ ق لیگ کے تیور بھی اثر دکھا رہے ہوں گے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حالیہ ملاقات کا اہتمام ق لیگ کے تیور درست کرنے کے لئے کرائی گئی ہو کہ اگر اس کے دس ووٹ مخالفت میں جا کر حکومت کا تختہ الٹ سکتے ہیں تو اپوزیشن کے سات آٹھ ووٹ حکومت کا تخت بچا بھی سکتے ہیں۔ ق لیگ کی قیادت نے جو ”پولا پولا“ نہلا پھینکا تھا اس پر بھولے بھالے بزدار نے دہلا پھینک دیا ہے۔ یار لوگ کہتے ہیں کہ ق لیگ کی پالیسیوں میں ابہام اور گومگو کی کفیت دکھائی دیتی ہے۔
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
عجیب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
اگر سوچنے والوں اور کچھ کر گزرنے والوں نے کسی متبادل کے بارے میں سوچا بھی تو ق لیگ ”قابل غور“ ہی ہو سکتی ہے مگر ابھی نہیں وہ تنہا خود کچھ نہیں کر سکتی اسے کچھ کرنے کے لئے دو بڑی جماعتوں میں سے کسی کے ساتھ ملنا ہوگا بلے سے ہٹتی ہے تو شیر رہ جاتا ہے جو ابھی تک ”چڑیا گھر“ کے منتظمین کو وارے نہیں۔ اس لئے بزدار صاحب آپ نے گھبرانا نہیں۔ راوی ابھی چین لکھتا ہے۔ صرف ”گجراتی معاملات“ پر شفقت بھری نظر رکھیں۔