جھیل پاگونگ اور اس کی اہمیت (2)
چینی اور بھارتی سولجرز کے درمیان جو جھڑپ 15جون کو ہوئی اور جس میں 20انڈین مارے گئے وہ دریائے گلوان کے ایک موڑ پر ہوئی۔لیکن اصل تنازعہ جھیل پاگونگ کے اس راستے پر پٹرولنگ کا تھا جس کو 8انگلیوں (Fingers) کا راستہ کہا جاتا ہے۔ یہ راستہ، لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر واقع ہے۔ دو فنگرز کے درمیان تقریباً ایک کلومیٹرکا فاصلہ ہے۔ اگر مغرب کی طرف سے شروع کریں تو فنگر نمبر ایک سے فنگر نمبر3تک کا علاقہ انڈیا کے زیر تسلط ہے اور اس پر انڈین سولجرز گشت کرتے رہتے ہیں۔ یہ گشت اس بات کا ثبوت سمجھی جاتی ہے کہ یہ علاقہ گشت کرنے والی پارٹی کے کنٹرول میں ہے۔ فنگر نمبر4 متنازعہ ہے۔ چین اس کو اپنے زیر تصرف سمجھتا ہے جبکہ انڈیا اس کو اپنا علاقہ سمجھتا ہے۔ فنگر نمبر5سے فنگر 8تک کی چار فنگرز پر چین کا غلبہ ہے۔(نقشہ دیکھئے)
یہ انگلیاں کیا ہیں اور انہیں یہ نام کیوں دیا گیا ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ جھیل پاگونگ میں پانی کی جو نہریں آ آکر گرتی ہیں ان کے دائیں بائیں کوہستانی ڈھلوانیں ہیں اور یہی وہ کوہستانی ڈھلوانیں ہیں جو فنگرز کہلاتی ہیں۔ اگر آپ اس علاقے کا فضائی جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ ڈھلوانیں گویا ہاتھوں کی انگلیوں کی مشابہ ہیں جن کے نشیبی حصوں سے پانی آکر جھیل میں گرتا ہے۔ اس کو اور زیادہ آسان مثال سے سمجھانا مقصود ہو تو یوں کیجئے کہ واش روم میں واشنگ بیسن میں اپنا بایاں ہاتھ اُلٹا کرکے کھولیں اور اس طرح رکھ دیں کہ اس کی ہتھیلی نیچے بیسن کو چھو رہی ہو۔ اب دائیں ہاتھ سے ایک گلاس پانی لے کر اسی الٹے ہاتھ پر گرائیں۔ آپ دیکھیں گے کہ پانی دو انگلیوں کے درمیان سے ہوتا ہوا بیسن میں جا گرے گا۔ لداخ کا علاقہ بھی عین آپ کے ہاتھ کی طرح ہے۔ یہاں کوہستانی شاخیں انگلیوں کی طرح پھیلی ہوئی ہیں اور ان کے درمیانی حصوں سے پہاڑی ندیاں آ آ کر 135 کلومیٹر طویل جھیل پاگونگ میں گر رہی ہیں۔ لائن آف ایکچوئل کنٹرول اس جھیل کو تقریباً درمیان میں کاٹتی ہے اور اس کا 40فیصد علاقہ انڈیا میں ہے اور 60فیصد چین میں ہے۔
اقصائے چین اور لداخ کا یہ علاقہ عجیب طرح کا پہاڑی علاقہ ہے۔ اس طرح کی ٹوپو گرافی دوسرے سلسلہ ہائے کوہ میں بہت کم پائی جاتی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ کارکنانِ قضا و قدر نے لاتعداد پہاڑی خیمے ایک ترتیب سے یہاں لا کر رکھ دیئے ہیں۔ ان دو خیموں کے درمیان جو خالی جگہ ہے اس میں خیموں کی ڈھلانوں سے پانی بہہ بہہ کر خیموں کے سامنے پھیلی گہرائیوں میں جا ملتا ہے۔ اسے کوہستانی ندی کہا جاتا ہے۔ یہ ندی سیدھی جا کر کسی جھیل یا دریا میں گر جاتی ہے۔ جھیل پاگونگ میں جو ندیاں آ کر گرتی ہیں ان کے دائیں اور بائیں کناروں کی بلندیوں کو فنگرز کا نام دیا جاتا ہے۔ اور اگر کسی اڑتے ہوائی جہاز سے نیچے دیکھیں تو یہ فنگرز ہی معلوم ہوتی ہیں۔
یادش بخیر، یہ شائد 2005ء کی بات ہے۔ میں ناردرن لائٹ انفنٹری رجمنٹ کی تاریخ لکھ رہا تھا۔ لیفٹیننٹ جنرل صفدر حسین، اس رجمنٹ کے کرنل کمانڈنٹ تھے۔ایک روز GHQ میں ان کے دفتر میں ایک طویل ملاقات ہوئی اور انہوں نے زور دے کر کہا کہ کتاب کی اشاعت میں تاخیر نہ کریں۔ اس رجمنٹ کا رجمنٹل ٹریننگ سنٹر بونجی میں ہے۔جہاں میری آمد و رفت ایک معمول بن گئی تھی۔ راولپنڈی سے گلگت کی فلائٹ کا انحصار موسم کی رضامندی کا مرہونِ منت ہے۔ کئی بار ایسا ہوتا کہ شام کو اطلاع ملتی کہ صبح 10بجے جہاز ٹیک آف کرے گا لیکن عین وقت پر معلوم ہوتا کہ موسم خراب ہو گیا ہے۔ اس طرح تین تین چار چار روز راولپنڈی میں ٹھہرنا پڑتا۔ گلگت سے بونجی تک سڑک کا راستہ ہے۔ بونجی دریائے سندھ کے عین کنارے پر واقع ہے اور اگر آپ پہلے سے عادی نہ ہوں تو سردیوں کے موسم میں بھی اس دریا کا شور آپ کو سونے نہیں دیتا۔ انہی ایام میں ایک بار گلگت جا رہا تھا کہ جہاز کے پبلک ایڈریس سسٹم میں پائلٹ کی آواز آئی: ”کرنل جیلانی جو اس سفر میں ہمارے ساتھ ہیں، ان سے گزارش ہے کہ کاک پٹ میں تشریف لے آئیں“…… میں اٹھا اور کاک پٹ کی طرف چلا گیا۔ فوکر کا کاک پٹ تنگ سا ہوتا ہے اور تیسرے بندے کے بیٹھنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ اس لئے میں تنگ دروازے ہی میں کھڑا ہو گیا۔ پائلٹ نے کہا: ”سر! گلگت کے سٹیشن کمانڈر سے ہمیں ہدائت ملی ہے کہ کرنل جیلانی کو اس سفر کی ٹوپو گرافی کے بارے میں بریف کیا جائے۔ میں معذرت خواہ ہوں آپ کو اندر نہیں بٹھا سکتا۔ موسم کلیئر ہے اور سب کچھ صاف صاف نظر آ رہا ہے۔ میں آپ کو راستے میں پڑنے والے گراؤنڈ فیچرز کی تفصیلات بتاتا جاؤں گا تاکہ جب آپ اپنی کتاب میں اس علاقے کی جغرافیائی کیفیات کا ذکر کریں تو آپ کو معلوم ہو کہ اس کی اہمیت کیا ہے۔ دوسرے جب گلگت ائرپورٹ پر لینڈ کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ائرپورٹ سے چند گزپیچھے ایک کوہستانی ندی کا کٹاؤ ہے اور ائرپورٹ کا رن وے بھی کوئی زیادہ وسیع و عریض نہیں۔ اس لئے چھوٹے جہاز ہی یہاں استعمال کئے جا سکتے ہیں“۔
یوں جہاز کا کپتان مجھے راستے کی ٹوپو گرافی کی تفصیل بتاتا رہا اور میں کاک پٹ کے دروازے میں کھڑا نیچے کے مناظر دیکھ دیکھ کر لطف دید اور کپتان کی گفتگو سے محظوظ ہوتا رہا۔ مجھے پہلی بار پتہ چلا کہ دریا کہاں سے اور کیسے پھوٹتے ہیں، کوہستانی ندیوں کا سفید شفاف پانی جھاگ اڑا اڑا کر اردگرد کی ندیوں کے پانی میں کیسے ملتا ہے اور ایک ڈھلوان کے بعد دوسری ڈھلوان تک کا درمیانی فاصلہ کبھی یکساں اور کبھی کم یا زیادہ کیوں ہوتا ہے۔ اس بریفنگ میں کپتان نے مجھے یہ بھی بتایا کہ لداخ، تبت اور نیپال وغیرہ میں ایک ہی طرح کی جغرافیائی یکسانی کیسے پیدا ہوتی ہے، فطرت (Nature) ان مناظر کی تخلیق میں کیا کردار ادا کرتی ہے اور ہم میدانوں میں بسنے والوں کو اس یکسانی کا زیادہ علم کیوں نہیں ہوتا……
نقشے کو دوبارہ دیکھئے۔ فنگر نمبر ایک سے نمبر8تک کا درمیانی فاصلہ اسی متذکرہ بالا کوہستانی بلندیوں کی یکسانی کا بین ثبوت ہے!
اصل تنازعہ، فنگر نمبر4پر چینی پرسپشن اور فنگرنمبر5 پر انڈین پرسپشن کا ہے۔ فنگر نمبر3سے ذرا سا پیچھے آپ کو ایک انڈین پوسٹ نظر آ رہی ہو گی۔ اس پوسٹ تک انڈیا نے پکی سڑک بنائی ہوئی ہے۔ لیکن فنگر3سے فنگر 4تک کوئی سڑک نہیں ہے۔ اور فنگر 4تو لائن آف ایکچویل کنٹرول کے عین اوپر ہے…… اب ذرا چین کی طرف کی زمینی صورت حال کو بھی نوٹ کریں۔چینی پوسٹ فنگر8سے 8کلومیٹر پیجھے ہے جس کا نام سری جاپ (Sirijap) ہے اور جو نقشے پر صاف لکھی نظر آتی ہے۔ چین نے اپنی طرف فنگر8سے مغرب کی سمت فنگر 4تک پکی سڑک بنائی ہوئی ہے۔ انڈیا کا اعتراض یہ ہے کہ مئی 1999ء سے پہلے یہ سڑک نہیں تھی۔ یہ تو جب کارگل وار ہوئی اور انڈیا کو اپنے ٹروپس یہاں سے نکال کر کارگل محاذ پر بھیجنے پڑے تو انہی دو تین ماہ میں چین نے اپنی پوسٹ سری جاپ سے فنگر 4تک 18،20میل پکی سڑک تعمیر کر لی۔ (جو نقشے میں صاف نظر آ رہی ہے)۔ چین کی پیٹرول پارٹی اسی سڑک پر گاڑیوں میں آتی جاتی ہے لیکن انڈیا کی پیٹرول پارٹی فنگر 4تک بھی بمشکل کچے راستے سے (گاڑیوں میں) آ جا سکتی ہے اور فنگر 4سے آگے فنگر 8تک کوئی ایسی سڑک نہیں جس پر انڈین پیٹرول پارٹی گشت کر سکے۔لہٰذا بھارتی پیٹرول فنگر 4پر آکر رک جاتے ہیں اور فنگر 4سے فنگر 5تک بھی نہیں جا سکتے۔
اب یہیں سے اصل تنازعہ کا اگلا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ انڈیا لداخ کے باقی علاقے میں سڑکوں کا جال بچھا چکا ہے اور اپنی عسکری قوت اگلے مورچوں تک جمع کر چکا ہے۔ اس لئے اب اسے خارش ہو رہی ہے کہ فنگر 4سے فنگر 8 تک سڑک تعمیر کرے لیکن چین اس سڑک کی تعمیر کو روکتا ہے۔ انڈیا کو خطرہ ہے کہ چینی فوج جب جی چاہے فنگر 4تک آ جا سکتی ہے لیکن بھارتی فوج اگر فنگر 3سے Move کرکے فنگر 4 تک بھی جاتی ہے تو چین اس کو ایسا نہیں کرنے دیتا۔ اس کا اصرار ہے کہ یہ علاقہ متنازعہ ہے اور یہ چین کا حصہ ہے۔
بھارت بڑی طاقتوں کی شہ پر اس علاقے پر چین کا عسکری دباؤ نہیں دیکھنا چاہتا، اس لئے فنگر4پر گزشتہ 8برسوں سے اکا دکا جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ اب اس برس ان جھڑپوں کی تعداد بڑھ گئی تھی۔ بلکہ روزانہ کا معمول بن گئی تھی۔
ہر سال جب موسم گرما آتا ہے تو انڈین اور چینی افواج اس علاقے میں معمول کی جنگی مشقیں چلاتی ہیں۔17ہزار فٹ کی اس بلندی پر موسم گرما میں بھی ایکسرسائزوں کا انعقاد کوئی آسان کام نہیں۔ جنگی مشقوں کے دوران فوجیوں کے قیام و طعام کا بندوبست کرنا ہوتا ہے اور بہت سی دوسری تعمیرات قائم کرنی ہوتی ہیں اور یہی سرگرمیاں ہر گرمیوں میں فریقین کے مابین جھڑپوں کا باعث بنتی ہیں۔ اس سال انڈیا نے جان بوجھ کر فنگر 4سے لے کر فنگر 8تک کے علاقے میں فوجی انفراسٹرکچر کھڑا کر دیا ہے اور بہانہ یہ بنایا ہے کہ چونکہ چین نے ایسا کرنے میں پہل کی ہے اس لئے اس نے بھی وہی کچھ کیا ہے جو چین نے پہلے کر دیا تھا……
یہی کشیدگی تھی جس نے 15جون 2020ء کو اس خونریز جھڑپ کا روپ دھارا جس میں انڈیا کے 20فوجی مارے گئے اور اس کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ اس سے زیادہ چینی فوجی بھی ہلاک اور زخمی ہوئے۔
اس صورتِ حال سے عہدہ برآ ہونے کے لئے انڈیا کے پاس دو آپشن تھیں …… ایک یہ کہ لداخ کے اس سیکٹر میں اپنی افواج (آرمی اور ائر فورس) کو چینی فورسز کے برابر لے آئے…… اور اس نے یہی کیا ہے…… اور دوسری آپشن یہ ہے کہ فنگر 4سے فنگر 8تک اسی طرح کی سڑک تعمیر کرے جس طرح کی چین کر چکا ہے۔ لیکن چین اس علاقے میں ایک گز مزید سڑک کی تعمیر کے سخت خلاف ہے……
آئندہ کی صورتِ حال مجھے یہ نظر آتی ہے کہ بھارت اپنی فورسز کو ہمیشہ کے لئے ان علاقوں میں مقیم نہیں رکھ سکتا جبکہ چین ایسا کرنے پر نہ صرف قادر ہے بلکہ ایک زمانے سے ایسا کررہا ہے۔ اب ستمبر کے بعد ڈرونوں پر تکیہ ہوگا اور دیکھئے ڈرونوں کی اس ”دوڑ“ میں بھارت کا پلہ بھاری ہوتا ہے یا چین کا۔(ختم شد)