معروف نعت نگار، ادیب اور ڈرامہ نگار لالہ صحرائی کی بیسویں برسی آج منائی جارہی ہے
ملتان (ویب ڈیسک)معروف نعت نگار، ادیب اور ڈرامہ نگار لالہ صحرائی کی آج بیسویں برسی منائی جارہی ہے ، 7 جولائی 2000 کو ان کا انتقال ہوا تھا۔
چودھری محمد صادق المعروف لالہ صحرائی 14 فروی 1920ء میں پیدا ہوئے تھے اور ملتان میں وفات ہوئی ۔ لالہ صحرائی کو70 سال کی عمر میں ایک غیر شاعر ہوتے ہوئے نعت نگاری حرمین شریفین حاضری کے وقت اللہ پاک کے حضور مانگی ہوئی دعا کے صدقے عطا ہوئی، پھر نعت کا سیل رواں عمر کے آخری ایام تک جاری رہا۔یوں حمد و نعت و غزوات نگاری کے 16 مجموعے ترتیب پا گئے جنہیں لالہ صحرائی فاونڈیشن نے "کلیات لالہ صحرائی " کے نام سے شائع کیا ہے۔لالہ صحرائی نےاردو ادب کی تمام ہی اصناف مضمون ،خاکہ رپورتاژ ،افسانہ،انشایئہ،ڈرامہ ، سفرنامے، طنزو مزاح اور انگریزی کلاسیکل ادب کے تراجم کئے۔ان تمام تحریروں کو لالہ صحرائی فاونڈیشن نے " نگارشات لالہ صحرائی " اور "منزل سے قریب "کے نام سے شائع کیا ہے۔
ان کے بارے میں سینئر صحافی اور روزنامہ پاکستان کے چیف ایڈیٹر مجیب الرحمان شامی لکھتے ہیں کہ " فلمی نام ، لالہ صحرائی، اس کا جنون خامہ فرسائی ، اس کا شوق جادہ پیمائی، اس کے ہیرو، سمٹ کر پہاڑ جن کی ہیبت سے رائی، اس کارواں میں شامل، جسے رب نے بخشا ذوق خدائی، اس کی زندگی درمحمدﷺ کی گدائی
اصلی نام: محمد صادق، اس سے دور منافق و فاسق، وہ اہل عزیمت کا مصاحب، حکیم محمد عبداللہ کی شراکت اور محبت نے بنا ڈالا حکیم حاذق، قددرمیانے سے قدرے نکلتاہوا، جسم چھریرے سے کچھ بڑھتاہو، فربہی سے دور بنتا ہوا، رنگ سانولا، گندمی کو چھوتاہوا، چہرے پر سفید داڑھی کا حاشیہ، اسے طول دینے کی خواہش یا کوشش میں نہ ہوئے کبھی مبتلا، شلوار قمیض کو کبھی شیروانی نے ڈھانپا ہوا، کبھی انہیں واسکٹ میں باندھا ہوا، سر میں ٹوپی یا یہ کہیے کہ ٹوپی میں سر، لیکن اٹھا ہوا۔۔۔۔ چہرہ مطمئن اور مسرور، ہردم کھلاہوا، خاموشی میں جہان معافی بسا ہوا، مختصر گفتگو، درشت الفاظ سے ناآشنا۔۔ چلتے ہوئے زمین پر بوجھ ڈالنے سے انکار، اپنا بوجھ آپ اٹھانے سے انکار، برملا، دوسروں کا بوجھ اٹھانے میں پیش پیش، وفاشعار و ایثارکیش۔
فضول خرچی شعار، نہ بخیلی سے سروکار، اپنی چادر میں بھی پاؤں پسارنے سے انکار، کبھی پاؤں پھیلائے نہ ہاتھ، اعزاو اقربا کے لیے جگہ تیار، میٹرک پاس لیکن علم کا پہاڑ، مطالعہ بے کنار، ازبرحوالے بے شمار، قرآن، حدیث، تاریخ، ادب اور سیاست کے رموز آشکار، آپ اپنا شاگرد، آپ اپنا استاد، سید مودودی کا خوشہ چین، ان کا جانثار۔
انگریزی پر نظر، اردوکا غواص، اعلیٰ مترجم، صاحب اسلوب نثر نگار، تحریر سادی و معنویت کاشاہکار۔منفرد اس کا لہجہ، اس کا اظہار۔ سفرحج کے دوران اس پر بارش انوار، عطاء ہوئی شاعری کی سوغات۔حمد ونعت کے اشعار، برسے موسلادھار۔لگ گئے رفعتوں کے انبار۔نشان رحمت پروردگار۔وہ پاکستان کا محافظ اور اس کے نظریئے کا علمبردار، میدان قلم کا شہ سوار۔اس سے اختلاف نہ بناوجہ عناد۔ندیم کا ہمدم، محمد صلاح الدین پر نثار۔دوستوں کا دوست، ان کا نگہدار۔اس کی اولاد، اپنی مثال آپ۔باپ کی ٹھنڈک، ماں کا قرار۔اس کے دوست ممتاز، اس کے لیے بے قرار۔میں اس کا ادنیٰ برخوردار۔سراپا دعا بحضورپروردگار۔ہوجنت میں اس کا اعلیٰ مقام، اعلیٰ، باوقار۔وہ صادق کہ پیغمبر صادق ﷺ کا پیروکار۔وہ لالہ صحرائی کہ منزل جس کی سایہ رب ذوالجلال
کون کہتا ہے کہ مومن مرگیا
قید سے چھوٹا وہ اپنے گھر گیا"