عظمیٰ  سلیم شناخت

عظمیٰ  سلیم شناخت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

شمال مشرق  پختونخواہ، جنوب مغربی افغانستان اور کراچی میں بسنے والے قریباً 28 لاکھ مہاجر  43برسو ں سے پاکستان میں آباد ہیں۔ 43برس قبل یہ لٹے پٹے خاندان جب پاکستان میں آباد ہوئے تو ان کی آبادی 20لاکھ تھی ملکی آبادی جس رفتار سے بڑھتی گئی افغان مہاجرین کی تعداد میں بھی بڑی تیزی سے اضافہ ہوتا گیا اور یہ تعداد بڑھ کر 29 لاکھ ہوگئی۔ اس اعداد و شمار کے حساب سے قریباً 9لاکھ افراد وہ ہیں جوپاکستان میں پیدا ہوئے۔ جنہوں نے پاکستان کو اپنا وطن جانا، اس سے محبت کی، اپنی زندگی میں کسی دوسرے ملک کا رخ نہ کیا۔ اپنی وفاداریاں اس ملک کے لیے سپرد کر دیں۔ لیکن کیا ان کووہ حقوق ملے جن کاہر ملک کا شہری حقدار ہے؟ کیا ان کی شناخت ایک پاکستانی کے طور پر ہوئی؟


پلوشہ شاید ان 28لاکھ مہاجرین میں سے ہی ایک کردار ہے،ایک ایسا کردار جو تمام مہاجرین کی پکار ہے۔ وہ حیران ہے،پریشان ہے، قدرت کی طرف سے ہونے والی نا انصافی پر نالاں ہے اور شکوہ زبان پر لاتی ہے تو شکایت کرتی ہے کہ وہ ان حقوق سے کیوں محروم ہے جسکی وہ آرزو مند تھی؟ ایساکیوں ہے کہ اس کے بچوں کو باقی پاکستانی بچوں کی طرح پاکستان کی شہریت نہ مل سکی۔کیوں اس کے بچوں کے  Birth certificate نہیں بن سکتے،آئی ڈی کارڈ اور پاسپورٹ نہیں بن سکتے۔ اس کے بچے سرکاری سکولوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ نہیں لے سکتے۔ وہ کیوں اپنے نام ٹیلیفون کی سم تک نہیں نکلوا سکتے۔ جائیداد کے مالک نہیں بن سکتے؟ پلوشہ ہم سے سوال کرتی ہے کیا اس کی کوئی شناخت ہے؟ پلوشہ اپنے اور ان 28لاکھ افراد کی آواز بن کر یہ پوچھنے کی جسارت کرتی ہے کہ ان کا مستقبل کیا ہے؟ ان سے بے رخی اور بے اعتنائی کیوں برتی جارہی ہے۔ وہ اس بات کا جواب چاہتی ہے کہ کوئی ہے جو ان کو اپنانے کو تیا ر ہے؟ وہ کس ملک کے باسی ہیں؟ وہ کون سا ملک ہے جس کا ترانہ وہ گائیں جسکو گاتے ہوئے  وہ احترام میں کھڑے ہو جائیں، سینے پرہاتھ رکھیں اور نظریں جھکا دیں؟ اگر یہ افغانی ہیں تو کیا افغان حکومت ان کو اپنانے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات کر رہی ہے آیا ان کو احساس ہے کہ انھوں کے اپنے باشندے کس مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ ان کی کشتی بیچ منجھدار ہی سفر کر ے گی یا اسکو ٹھکانے لگانے والا کوئی ہو گا؟ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ "ان کی کوئی شناخت نہیں " 


پلوشہ کی باتیں سن کر ماضی کے دریچے کھل جاتے ہیں ہر طرف گولیوں کی تھر تھراہٹ، توپوں کی گھن گرج،خون کی ہولی، بچوں و بزرگوں کی آہ و بکااور خواتین کی عصمتدری،بدقسمت خاندان اپنی اور گھر والوں کی جانیں بچانے کے لیے سرحد پار پہنچے۔ حکومت پاکستان نے ان کو عارضی پناہ دی تو اس کو ہی اپنا مسکن بنا لیا۔ معیشت کی ڈولتی کشتی پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا۔ 
UNHCR بھی ایک خطیر رقم ان کی آبا د کاری پر خرچ کرتا ہے لیکن ان کی تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی ضروریات فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ اگر ان کی تعلیم اور دیگر صحت مند رجحانات کی طرف توجہ دی جاتی تو شاید وہ معاشرے کے لیے ایک مثبت رول ادا کر سکتے لیکن بد قسمتی سے وسائل کی کمی نے  محرومی کو جنم دیا ہے۔ اس وجہ سے وہ معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے سے قاصر رہے۔ پاکستان میں کلاشنکوف کلچر عام ہو گیا۔


گذشتہ 44سالوں میں آنے والی حکومتوں نے  بھی اس مسئلے کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ اصولاً روسی فوجیوں کے انخلا کے ساتھ ہی افغان مہاجروں کو ان کے وطن روانہ کر دینا چاہیے تھا مگر بد قسمتی سے ذاتی مفاد ہمیشہ قومی مفادپر حاوی ہو جاتا ہے۔ موجودہ حکومت نے ان افغان مہاجرین کے مسائل کا ادراک کر کے ان کو پاکستانی شہریت دینے کا وعدہ کیا۔ ان سے وعدہ کیا کہ وہ پاکستان میں اپنا اکاونٹ کھلوا سکیں گے اور ان کا بھی کوئی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ہوگا۔ اس پر وزیراعظم عمران خان کوشدید تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس مخالفت سے ذہن میں سوال ابھرتا ہے کہ افغان مہاجرین کو شہریت حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں؟ دنیا کا کوئی قانون ایسا نہیں جو مہاجرین کو ان کی جائے پیدائش کوان کا وطن کہہ سکے وہاں کی شہریت مل سکے۔ اگر شہریت ان کا حق نہیں ہے تو ان کو باعزت انخلاء کا حق تو ضرور ملنا چاہیے۔ 


ستمبر 2021ء میں امریکی فوجیوں کے افغانستان سے انخلاء کے بعد کیا صورتحال ہوگی۔ اس پر کوئی حتمی رائے تو نہیں دی جاسکتی لیکن تاریخ کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ پیشن گوئی کی جاسکتی ہے کہ طالبان افغانستان کے ایک حصے پر قابض ہو جائیں گے۔ افغانستان میں صدیوں سے رائج قبائلی نظام طالبان کی برتری کو قبول نہ کرئے گا۔ مضبوط قبائلی سردار بھی یہاں حکومت بنانے کی کوشش کریں گے۔ جس کے نتیجے میں خانہ جنگی جنم لے گی۔ تاریخ ایک دفعہ پھر خود کو دہرائے گی۔ لاکھوں لٹے پٹے خاندان سرحد پار کریں گے اور پاکستان کو اپنا مسکن بنائیں گے۔ کیا پاکستان ان مہاجرین کو پنا ہ دینے کا متحمل ہو سکتا ہے؟ کیا ملکی معیشت ان مہاجرین کو سہارا دے پائے گی؟ کیاان کو وہ تمام بنیادی سہولیات میسر ہونگی جن کے وہ حقدار ہیں؟ کیاان کی بھی کوئی شناخت ہوگی؟

مزید :

رائے -کالم -