لوگ کیا کہیں گے ؟
ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم
ہمارے استاد محترم نے ہمیں اس جملے سے متعلق ایک واقعہ سنایا کہ یہ جملہ ایسا ہے جو ہم سے کوئی بھی کام کروا لے ۔ ایک دفعہ ایک غریب بوڑھے کسان نے اپنی زمین بیچ کر اور تمام جائیداد بیچ کر اپنے بچے کو ڈاکٹر بننے کے لیے باہر کسی یورپ کے ملک میں بھیج دیا ۔اب بچہ تھا تو محنتی مگر جب واپس آیا تو اسکے ساتھ ایک عدد گوری میم تھی ۔ائیر پورٹ پر اسے وہاں کی تہذیب کا دیا ہوا سبق یاد آگیا کہ ابا جی جب مجھے ائیر پورٹ پر لینے آئیں گے تو میں اپنی اس یورپین بیگم سے کیا تعارف کرواؤں گا کہ یہ بوڑھا میرا باپ ہے تو یہ کیا سوچے گی ۔اسی کشمکش میں مبتلا تھا کہ سامنے سے پنجابی میں بوڑھے باپ نے آواز دی آگیا میرا پتر میری آنکھوں کا تارا میرا شہزادہ میری زندگی اور سب کچھ ۔ اتنے میں اس خاتون نے سوال داغ دیا جس کا اس نوجوان کو خوف تھا
who is this old man
جوان سوال سن کر پریشان ہو گیا آخر اس نے سوچا سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے تو فوراً انگلش میں جواب دیا کہ ابا جی کو کیا پتہ میں نے کیا کہا ہے ۔
This old man is my friend
بوڑھے کسان کو اتنی انگریزی تو سمجھ آگئی کہ میرا بچہ اب میرا نہیں رہا اور یہ مجھے اپنا باپ بتانے سے بھی شرما رہا ہے فوراً بولا بیٹی میں اس کا نہیں اس کی ماں کا فرینڈ ہوں ۔
جی ہاں ”لوگ کیا کہیں گے “۔ اس جملے نے ہم سے اپنے بھی چھین لیے یہ ایک کہاوت یا کہانی نہیں بلکہ ایک المیہ ہے جو ہماری خوشیوں اور صاف زندگی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔
یہ ایک قید خانہ ہے ۔خود کو اس سے آزاد کیجیے ۔ ہم جب بھی کوئی کچھ کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو قدم اٹھانے سے پہلے ہی ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ”لوگ کیا کہیں گے“۔اس ایک جملے نے ہمیں حقیقی زندگی اور اس کے لطف سے کوسوں دور کر دیا ہے ہم اس ایک جملے کے قیدی بن کر رہ گئے ہیں ۔ اگر سچ کہا جائے تو اس جملے نے ہمیں ریا کار بنا دیا ہے اور یہ ریاکاری ہماری ناکامی کا سب سے اہم سبب بن گئی ہے۔ بڑے تو بڑے ہم اپنی نئی نسل کی تربیت بھی اسی ایک جملے پر کر رہے ہیں ۔ اگر اس جملے کا تعلق اپنے معاشرے سے دیکھیں تو ہمیں جا بجا اس کے ذہنی قلبی قیدی نظر آئیں گے ۔ مثلًا آپ کی آسانی کے لیے ایک جائزہ بیان کر دیتا ہوں ۔
کلاس روم ۔۔۔۔۔ بچے کہتے ہیں ۔۔ہمارے کلاس فیلوز کیا کہیں گے ۔
گھر میں ۔۔۔۔۔رشتے داروں کو کیا منہ دکھائیں گے ۔
راستے میں ۔۔۔۔ لوگ دیکھ رہے ہیں کیا سوچیں گے ۔
کام میں ۔۔۔۔ عزت بچانا ضروری ہے۔
لباس میں ۔۔۔۔ لوگ کیا کہیں گے کیا اولڈ فیشن کیا ہے ۔
زبان میں ۔۔۔ یار ہم تو انگلش بولنا پسند کرتے ہیں ۔ناٹ لائیک پنجابی ۔اردو بولنے کا تو زمانہ ہی نہیں ۔
ہوٹل میں کھانے میں ۔۔۔۔ اب تو فاسٹ فوڈ کا زمانہ ہے ۔
راہ چلتے کھانا ۔۔۔۔ کھڑے کھڑے بوتل پینا ۔۔۔۔ سٹائل میں سگریٹ پینا ۔۔۔۔ گری ہوئی اخبار کا ٹکڑا نہیں اٹھا سکتے ۔۔لوگ کیا کہیں گے یہ کیا کر رہا ہے ۔۔۔ ۔اعتراف یوں ہے کہ ”خوف خدا“ کی جگہ ”خوف دنیا“ نے لے لی ہے۔
ایک طالب علم ہے وہ ایم اے پاس ہے لیکن اس کو ملازمت نہیں مل سکی اور وہ فارغ سارا دن پھرتا ہے جب اس سے پوچھا کہ کوئی کاروبار شروع کر لو تو وہ کہتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ فلاں کا بیٹا پڑھ کر دکان پر بیٹھا ہے۔
اسی طرح اگر ایک طالب علم سوشل سائنسز میں جانا چاہتا ہے تو اس کا باپ کہتا ہے ڈاکٹر بنو‘ میرے بیٹے نے میری ناک کٹوا دی لوگ کیا کہیں گے کہ فلاں کے بیٹے نے آرٹس رکھ لی ہے۔
اسی طرح اگر کوئی طالب علم لاءمیں جانا چاہتا ہے تو اس کو کہا جاتا ہے ڈاکٹر یا انجینئر بنو۔ بات وہی ،لوگ کیا کہیں گے۔
لوگوں کی باتوں کا خوف اس کے قدم ڈگمگا دیتا ہے ۔ ہم معاشرے کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن کر رہ گئے ہیں۔ ہماری سوچیں لوگوں کے ردعمل کی غلام بن گئی ہیں۔ اس ایک فقرے ”لوگ کیا کہیں گے“ نے معاشرے کا ستیاناس کرکے رکھا ہوا ہے ۔آپ دراصل لوگوں کی رائے پر جی رہے ہیں اور جو آپ کے خام ہونے کی کھلی دلیل ہے۔ اگر آپ نے اپنی مرضی سے کامیاب اور حقیقت پسندانہ سوچ کے تحت زندگی گزارنی ہے تو سب سے پہلے یہ کیجئے کہ اپنے دل و دماغ سے” لوگ کیا کہیں گے “کے الفاظ کھرچ کر پھینک دیں. ...
کسی سے بلاوجہ متاثر ہونا یا کسی کو متاثر کرنا آپ کے احساس کمتری کی دلیل ہے کیونکہ دراصل کسی سے متاثر ہونا اس کو خود سے متاثر کروانے کی ایک بے معنی کوشش ہے جو آپ کی تضحیک کا باعث بنتی ہے۔ لوگوں کے کچھ کہنے سننے پر توجہ دینے کی بجائے اپنی اقلیم ذات پر خود حکمرانی کرنا سیکھیں ۔اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو اندازہ ہوگا کہ بعض لوگ صرف گفتار کے غازی، تنقید، کھینچا تانی اور عیب نکالنے میں ماہر ہوتے ہیں جنہیں اس کے سوا شاید کچھ اور آتا ہی نہیں۔ ہر کام میں عیب نکالنے اور تنقید کرنے کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بہت سی مثبت چیزیں صرف اس لیے ہمارے سامنے نہیں آتیں کہ ”لوگ کیا کہیں گے؟“ اس ایک جملے نے ہمارے کئی ارمانوں کاخون کردیا ہے اور اب بھی یہ جملہ ہر خواب اور ہر خواہش کے آڑے آتا ہے۔ لوگوں کا یہ خاص طبقہ جو خود کچھ کرتا ہے اور نہ دوسروں کو ہی کرنے دیتا ہے، معاشرے کا بڑا نقصان کر رہا ہے۔ اپنے تعلقات کے ڈرائنگ روم اور سٹور روم کی صفائی بھی کیا کریں ۔ کچھ تعلقات ان چیزوں کی مانند ہوتے ہیں جو موجود ہوتے ہیں شاید قیمتی بھی ہوں مگر وہ آپ کی زندگی کا حسن خراب کرنے کا کوئی موقع ضا ئع نہیں جانے دیتے ۔ ایسے تعلقات بے شک قیمتی ہیں مگر آپ کے لیے ان کی قیمت کچھ نہیں ان کی صفائی کریں انہیں ضائع نہ کریں مگر انہیں زندگی کے ڈرائنگ روم سے نکال کر سٹور روم میں منتقل کر دیں ۔ کیونکہ کامیابی کی راہ میں چلنے پر جو آپ کو حوصلہ نہ دیں آپ ہی کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچیں تو سمجھ جائیں بروقت خاموشی سے اسے سٹور روم میں منتقل کر دیں ۔ کامیابی چاہتے ہیں تو خود کو خدا را اس جملے ”لوگ کیا کہیں گے “سے آزاد کریں ۔ افلاطون کا یہ جملہ اپنے پلے باندھ لیں سفر آسان ہو جائے گا ۔ افلاطون نے کہا تھا کہ ”لوگ میرے بارے میں کیا کہتے ہیں یہ میرا مسئلہ نہیں ہے یہ ان کا مسئلہ ہے“ ۔ خدارا اپنی اچھائی اور برائی کو پرکھنے کا ترازو اپنے پاس رکھئے خود پر بھروسہ کریں جانچئے ‘ فیصلہ کیجئے اور عمل کیجئے یقیناً کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔
کتاب ” کامیابی کے راز “ سے انتخاب
نوٹ : ادارے کا مضمون نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں