گرمی کی شدت اور بجلی کی قلت.... عوام بے حال
صبح ہوئی تو اندازہ ہونے لگا، ہوا تھی ضرور، لیکن محسوس نہیں ہو رہی تھی، نتیجہ فطرتی کہ جونہی سورج نے آنکھ کھولنا شروع کی درجہ حرارت بڑھنے لگا، روزانہ طلوع آفتاب کا منظر بھاتا ہے۔ کھیتوں کے اوپر اور درختوں کی اوٹ سے جھانکتا ہوا سرخ گولہ آنکھ کو بھی بھلا محسوس ہوتا، لیکن آج کچھ کیفیت ہی مختلف تھی، راﺅنڈ پورا کر کے پارک میں آئے تو احساس ہوا کہ پسینہ بھی معمول سے زیادہ ہے اور درختوں کی چھاﺅں بھی روز ایسی نہیں۔ بہرحال دھوپ سے قدرے بہتر تھی۔ یہ شائد درجہ حرارت ہی کی مہربانی تھی کہ محفل بھی آدھ گھنٹہ پہلے برخاست ہو گئی۔ خیال آیا چل کر تیاری کرتے ہیں،جو وقت یہاںسے بچ گیا اس کا بہتر استعمال یہی ہے کہ ذرا جلدی تیار ہو کر دفتر کا رُخ کیا جائے کہ جمعتہ المبارک ہے۔کالم قدرے جلد لکھ لیں گے، معمول کے مطابق لوڈشیڈنگ کے اوقات جو8سے 9بجے تک تھے۔ اسی لحاظ سے سوچا کہ 7بجے سے قدرے پہلے آ گئے ہیں تو تیار ہونے میں بھی اتنا ہی وقت بہتر استعمال ہو گا۔ برش کر کے شیو بنائی اور نہانے کی تیاری کی تھی کہ بجلی چلی گئی۔ پانچ منٹ انتظار کیا کہ ٹرپنگ نہ ہوئی ہو، لیکن جب تاخیر ہوئی تو غسل خانے کو چھو ڑکر باہر آ گئے ۔
ٹی وی لاﺅنج میں ڈیرہ لگایا کہ اب روشنی آئے گی تو نہا بھی لیں گے اس عرصے میں اخبار پر نظر ڈال لی جائے۔ پھر بھی تسلی نہ ہوئی تو لیسکو کی سب ڈویژن فون کیا کہ تسلی ہو، کہیں شٹ ڈاﺅن تو نہیں لی گئی۔ خوش قسمتی سے پہلی ہی کال سُن لی گئی، استفسار پر بتایا گیا کہ کوئی شٹ ڈاﺅن نہیں، لوڈشیڈنگ ہے حیرت ہوئی کہ8بجے کی بجائے یہ سوا سات ہو گئی تھی اور پھر ان محترمہ (بجلی) کی واپسی ساڑھے آٹھ بجے ہوئی۔ نہ گھنٹہ نہ ڈیڑھ گھنٹہ پورا سوا گھنٹہ بجلی بند رہی۔یوں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھا تو 15منٹ کے لئے ایسا ہوا۔ اب آپ جو جی چاہے کہیں جواب ملے گا ایک گھنٹے ہی کے لئے بند ہوئی تھی اس کا کوئی جواب نہیں کہ یہ سوا گھنٹہ کس بلا کا نام ہے اور اچانک وقت کی تبدیلی بلا شیڈول لوڈشیڈنگ نہیں۔ بہرحال غسل خانے سے فارغ ہو کر ٹی وی کھولا تو معلوم ہوا کہ سورج کی مہربانی سے دن ہی37سنٹی گریڈ درجہ حرارت سے شروع ہوا جو بڑھتے بڑھتے 46سے47 تک بھی پہنچ گیا۔ دوسری طرف لیسکو کی مہربانی تھی کہ لوڈشیڈنگ کے دورانیہ میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔
جمعرات کی اطلاع یہ ہے کہ بالائی علاقوں میں درجہ حرارت اتنا نہیں بڑھا جس کی ضرورت ہے، اس لئے برف پگھلنے کی رفتار کم اور دریاﺅں میں پانی کی بھی کمی ہے۔ تربیلا ڈیم میں بدھ کو پانی کی آمد 15ہزار کیوسک اور اخراج65ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔ ارسا کی طرف سے خبردار کیا گیا کہ اگر صورت حال یوں ہی برقرار ری تو تربیلا ڈیم کی سطح صرف پانچ روز میں ڈیڈ لیول پر آ جائے گی اور پھر ڈیم سے اتنا ہی پانی ملے گا جتنا اوپر سے آ سکے گا اور ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کے لئے موسم برسات کا انتظار ہو گا اس مرتبہ یہ پیش گوئی بھی کی گئی ہے کہ برسات میں بارشیں معمول سے بھی کم ہوں گی ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ بجلی کے ساتھ ساتھ پانی کا بحران بھی ہو گا۔اس وقت منگلا ڈیم کی حالت قدرے بہتر بتائی گئی ہے، لیکن آمد اور اخراج میں عدم توازن زیادہ ہے جو زیادہ دیر برداشت نہیں ہو گا۔
پاکستان کے شہریوں نے اس مرتبہ اچھا وقت گزارا کہ مئی کے وسط حتیٰ کہ آخری عشرے تک بھی مغرب کی ٹھنڈی ہواﺅں سے لطف اندوز ہوئے اور گرمی میں بہار کا مزہ لوٹتے چلے گئے، کسی نے بھی توجہ نہ دی کہ موسم کی تبدیلی کیا معنی رکھتی اور اس کے اثرات کیا ہوں گے۔ ہمارے خبر دینے والے بھی بادلوں اور بوندا باندی کو خوشگوار موسم قرار دیتے چلے گئے اور یہ غور کرنے کی مہلت ہی نہیں دی کہ گرمی کی شدت میں اچانک اضافہ ہو گا کہ یہ خوشگوار موسم عارضی چیز ہے اور ایسا ہی ہوا کہ جون کے پہلے ہفتے ہی میں سورج نے آنکھ کھول کر دکھائی اور یہاں بُرا حال ہو گیا کہ ہم اس کے لئے تیار ہی نہیں تھے۔اب صورت حال مزید خراب ہو گی کہ جونہی ڈیم سے پانی کا اخراج کم ہو گا اتنی ہی پن بجلی بھی کم پیدا ہو گی اور پھر ایک روز یہ بھی آ سکتا ہے کہ ڈیموں سے یہ سستی بجلی نہ ملے اور تھرمل بجلی گھروں پر انحصار آ جائے یہاں سے توقعات پوری نہیں ہوں گی۔
گرمی کی شدت اور بجلی کی قلت نے عوام کو بے حال کر دیا ہے اوپر سے بجلی کی ترسیل کے نظام نے بھی جواب دینا شروع کر دیا ہے اکثر علاقوں میں ٹرپنگ معمول ہے اور متعدد علاقوں میں ٹرانسفارمر خراب ہو رہے ہیں، جن کا متبادل حل نہیں ہے۔ ابھی دو روز پہلے کی بات ہے کہ مصطفی ٹاﺅن (عباس بلاک) کے ایک پورے محلے کو بجلی مہیا کرنے والا ٹرانسفارمر جواب دے گیا۔ دو محلے بجھ سے گئے۔ یو پی ایس کا سہارا بھی کام نہ آیا کہ متبادل ٹرانسفرمر لگنے تک یہ سب جواب دے چکے تھے۔پورا محلہ الیکٹر سٹی سب ڈویژن کے سامنے کھڑا احتجاج کرتا رہا۔ ایس ڈی او اور عملہ اپنا کام کرتا رہا۔ ٹرانسفارمر کے بارے میں پہلے بتایا گیا کہ یہ تو ہے ہی نہیں! لوگوں کی حالت دیدنی تھی، وہ پریشان تھے۔ پھر اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ ٹرانفسارمر آ گیا اب وہ کرین دستیاب نہیں تھی جس نے پرانے کو اتار کر نئے کی تنصیب کرنا تھی۔ یہ مرحلہ بھی گھنٹوں بعد حل ہوا اور پورے 17گھنٹے بعد بجلی بحال ہو ہی گئی۔ یوں لوگوں نے سُکھ کا سانس لیا۔یہ صورت حال کسی ایک جگہ نہیں، پورے شہر میں پیش آ رہی ہے اور ٹرانسفارمر خراب ہو رہے ہیں، جس رفتار سے خرابی پیدا ہو رہی ہے، اس کے مطابق ٹرانسفارمر موجود ہی نہیں ہیں، تو نصب کہاں سے ہوں گے۔یہ سب ایک ایسی جماعت کی حکومت کے زیرسایہ ہو رہا ہے جو لوڈشیڈنگ کے خلاف عوام کے جذبات کو بھڑکا کر ووٹ حاصل کرتی تھی اور لوڈشیڈنگ کے زور پر رائے عامہ ہموار کرتی تھی اس میں کامیاب رہی۔ اب جو صورت حال ہے وہ یہ کہ پیداوار بڑھانے کے لئے معاہدے اور یاد داشتوں پر دستخط ہو تے چلے جا رہے ہیں۔ ان کی تکمیل میں وقت لگے گا، اتنی دیر میں بہتر اور حقیقت پسندانہ مواقع پیدا کر کے ان سے جو کچھ ملتا ہے اسے مساوات کے اصول کے مطابق تقسیم ہونا چاہئے۔ ٭